بھوپال:17اگست : مدھیہ پردیش اردو اکادمی، محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام ملک کے 78ویں یومِ آزادی کے موقع پر جشن آزادی مشاعرہ کا انعقاد 17 اگست، 2024 کو شام 7:00 بجے سے کالی داس اکادمی، اجین میں ہوا۔
پروگرام کی شروعات میں اردو اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے پروگرام کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں کہ اس وقت پورے ملک میں آزادی کا کا جشن منایا جا رہا ہے۔مدھیہ پردیش اردو اکادمی کا پروگرام “جشن آزادی مشاعرہ” بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے. اردو زبان و ادب میں شاعری میں نثر میں ڈرامہ میں فکشن میں سبھی ادیبوں اور شعرا نے اپنا کردار بخوبی نبھایا ہے ۔ اردو ادیب و شعرا جنگ آزادیِ وطن میں دوسری زبانوں کے ادیبوں و شاعروں سے کسی طرح پیچھے نہیں رہے ، تاریخ جنگ آزادی کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُردو ادیبوں اور شعراے کرام نے جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور وطن عزیز کو آزاد کرانے کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دیں ،تحریک آزادی مختلف مراحل سے گزری اردو ادیبوں اور شاعروں نے ہر مرحلے پر اپنا کردار کامیابی سے ادا کیا. آج بھی اردو شعرا اپنی شاعری کےذریعے محبت کا پیغام دے رہے ہیں. یہ مشاعرہ اسی روایت کا حصہ ہے۔ ساتھ ہی مدھیہ پردیش اکادمی کی یہ بھی کوشش رہتی ہے کہ اگر صوبے کے کسی شہر میں کوئی سینئر ادیب یا شاعر ادبی و شعری خدمات انجام دے رہے ہوں تو ان کی ادبی خدمات کا بھی اعتراف کیا جائے۔ اسی سلسلے میں آج اجین کے سینئر شاعر ڈاکٹر ضیا رانا کے شعری مجموعے “سرحد جاں” کا اجراء بھی بھی کیا جارہا ہے۔مشاعرے کی صدارت اجین کے استاد شاعر نے فرمائی۔ جن شعراء نے اپنا کلام پیش کیا ان کے اسمائے گرامی اور اشعار درج ذیل ہیں۔
گزرتا ہے مرا ہر دن مگر پورا نہیں ہوتا
میں چلتا جا رہا ہوں اور سفر پورا نہیں ہوتا
خدا بھی خوب ہے بھگوان کی مورت بھی سندر ہے
مگر جب ماں نہیں ہوتی تو گھر پورا نہیں ہوتا
(شکیل اعظمی)
زندگی کے بوجھ سے جب ٹوٹنے لگتے ہیں پاؤں
جسم کی تہہ کھول کر بستر بنا لیتا ہوں میں
(عزم شاکری)
میری خواہش کا یہ بازار بڑا مہنگا ہے
اپنے بچوں کے لیے خود ہی کھلونا ہوجاؤں
(ثمر کبیر)
زندگی نام کسی اور کے ہوجاتی ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں محبت کرنا
(ڈاکٹر ضیا رانا)
خاموش ہیں وہ اس لیے دل کے سوال پر
معلوم ہے جواب میں رکھے ہوئے ہیں ہم
(آلوک شریواستو)
چراغ دل میں جل رہے ہیں، روشنی ہے راہ میں
فضا میں دیش راگ ہے چمک ہے ہر نگاہ میں
(رشمی صبا)
جو دیکھنا ہو مجھے تو ذرا ٹھہر جانا
میں منظروں کے بہت بعد کا نظارہ ہوں
(گوتم راج رشی)
جانے کس کا حق دبا کر گھر میں دولت لائے ہو
اور اس پہ یہ ستم اس میں بھی برکت چاہیے
(ڈاکٹر ندیم شاد)
وہ لوگ بن گئے اوروں کی راہ کے پتھر
تمام عمر جنہیں کوئی راستہ نہ ملا
(التمش عباس)
آسماں کو چیرکر پہنچے گی دل کی ہر صدا
دھڑکنوں کو بندگی کے کام میں لایا کرو
(رئیس نظامی)
مجھ سا ویرانہ میسر نہیں ہوگا تم کو
مکڑیوں آؤ بنا کر رہو جالے مجھ میں
(افروز سحر)
یہ کیسا عشق ہے جس میں کہ ڈر زیادہ ہے
بہت زیادہ نہیں ہے مگر زیادہ ہے
ادھر ہے بیٹا مرا اور ادھر مری بیٹی
یہ دل ادھر بھی ہے لیکن ادھر زیادہ ہے
(شاہ نواز عصیمی)
ذرا سی بات تھی اور اتنے پیچ و خم نکل آئے
انھوں نے حال پوچھا تھا ہمارے غم نکل آئے
(رنجن نگم)
میں ایک روز اندھیروں میں ڈوب جاؤنگا
تمام روشنی بچوں کے نام کرتے ہوئے
(سرخاب بشر)
پروگرام کی نظامت کے فرائض احمد رئیس نظامی نےبحسن خوبی انجام دیے۔