بھوپال :9اگست: اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ضلالت و جہالت سے مبرا اور دلائل و براہین سے آراستہ ہے، اسلام کے تمام احکام پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں اور اس دین مبین میں خرافات وبدعات کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ اب کوئی نام نہاد عالم دین، مفتی یا محدث ایسا نہیں جو اس دین مبین اور صاف و شفاف چشمے میں بدعات و خرافات کا زہر ملائے لیکن افسوس ہے کہ شیطان اور اس کے پیروکاروں نے اس دین مبین کو ضلالت و جہالت سے خلط ملط کرنے اور خرافات سے داغدار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
دیگر مہینوں کی طرح ماہِ صفر میں بھی کچھ جاہلانہ رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ صفر کا مہینہ اسلامی مہینوں کی لڑی کا دوسرا موتی ہے۔ اس مہینے کے بارے میں غلط باتوں کو ختم کرنے کے لئے اسے ‘صفر المظفر’ کہا جاتا ہے۔
مذکورہ باتیں آج نماز جمعہ سے قبل قاضی شہر حضرت مولانا سید مشتاق علی ندوی مدظلہٗ نے موتی مسجد بھوپال میں خطاب فرماتے ہوئے کہیں۔قاضی شہر نے فرمایا کہ قبل از اسلام اہل جاہلیت ماہِ صفر کو منحوس اور اس ماہ میں سفر کرنے کو برا سمجھتے تھے، اسی طرح دورِ جاہلیت میں ماہِ محرم میں جنگ و قتال کو حرام خیال کیا جاتا تھا اور یہ حرمت ِ قتال ماہ صفر تک برقرار رہتی لیکن جب صفر کا مہینہ شروع ہو جاتا، جنگ و جدال دوبارہ شروع ہو جاتے لہٰذا یہ مہینہ منحوس سمجھا جاتا تھا۔ عرب کے لوگ ماہ صفر کے بارے عجیب عجیب خیالات رکھتے تھے۔
الغرض آج کے اس پڑھے لکھے معاشرے میں بھی عوام الناس ماہِ صفر کے بارے جہالت اور دین سے دوری کے سبب ایسے ایسے توہمات کا شکار ہیں جن کا دین اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہ اسی قدیم جاہلیت وجہالت کا نتیجہ ہے کہ متعدد صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی عوام الناس میں وہی زمانہ جاہلیت جیسی خرافات موجود ہیں۔
قاضی صاحب نے حاضرین مسجد کو بر صغیر کے حالات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ برصغیر کے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتاہے۔ اس مہینے میں توہم پرست لوگ شادی کرنے کو نحوست کا باعث قرار دیتے ہیں۔ فی زمانہ لوگ اس مہینے سے بدشگونی لیتے ہیں اور اس کو خیر و برکت سے خالی سمجھتے ہیں۔ اس میں کسی کام مثلاً کاروبار وغیرہ کی ابتدا نہیں کرتے، لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے۔ اس قسم کے اور بھی کئی کام ہیں جنہیں کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا اعتقاد ہوتا ہے کہ ہر وہ کام جو اس مہینے میں شروع کیا جاتا ہے وہ منحوس یعنی خیر و برکت سے خالی ہوتا ہے۔
اس مہینے کی بابت لوگوں میں مذکورہ رسومات و بدعات رواج پاچکی ہیں جن کی تردید نبی اکرم ﷺنے اس حدیث میں فرمائی ہے:
” اللہ کی مشیت کے بغیر کوئی بیماری متعدی نہیں اور نہ ہی بد شگونی لینا جائز ہے، نہ اْلو کی نحوست یا روح کی پکار اور نہ ماہِ صفر کی نحوست۔”
اس حدیث میں ماہِ صفر کو منحوس سمجھنے سے منع کیا گیا ہے، ماہ صفر کو منحوس سمجھنا بدشگونی کی اقسام میں سے ہے۔ اسی طرح مشرکین کا پورے مہینے میں سے بدھ کے دن کو منحوس خیال کرنا سب غلط ہیں۔
لہٰذا ماہِ صفر کو منحوس خیال کرنا، نحوست کی وجہ سے اس مہینے میں شادیاں کرنے سے رکے رہنا، اس میں مٹی کے برتن ضائع کردینا، ماہ صفر کے آخری بدھ یعنی چہار شنبہ کو جلوس نکالنا اور بڑی بڑی محفلیں منعقد کرکے خاص قسم کے کھانے اور حلوے تقسیم کرنا اور چْوری کی رسم ادا کرنا وغیرہ مردود اور شرکیہ عمل ہے جس سے ہر صورت میں اجتناب ضروری ہے۔
قاضی صاحب نے اظہار تاسف کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کتنی بد نصیبی اور بے خبری کی بات ہے کہ بعض حضرات و خواتین صفر المظفر کے آخری بدھ کو تعطیل(چھٹی) کرکے کاروبار اور دکانیں بند کردیتے ہیں اور عید کی طرح خوشیاں مناتے ہیں اور سیر سپاٹے کے لئے گھروں سے نکل جاتے ہیں جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺاس آخری بدھ میں صحت یاب ہوئے تھے اور سیر و تفریح کے لئے باہر تشریف لے گئے تھے حالانکہ اس دعویٰ کی اصل نہ حدیث میں ہے نہ ہی تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ لہٰذا یہ ساری بدعات لغو اور دین حنیف میں اضافہ ہیں، شریعت میں ان کا کوئی جواز نہیں۔
بلکہ آخری چہار شنبہ کو جناب رسول اللہﷺ کو شدتِ مرض واقع ہوئی تھی اور یہودیوں نے خوشی منائی تھی ”افسوس کہ اب تک ہندستان کے مسلمان ایسے خیالات میں مبتلا ہیں کسی تاریخ کو منحوس کہتے ہیں اور کسی دن کو نامبارک جانتے ہیں ۔ اسلام میں ان باتوں کی کوئی اصل نہیں، سب دن اللہ کے ہیں اور جو اْس نے تقدیر میں لکھ دیا ہے وہ ضرور ہونے والا ہے، نجومی اور پنڈت سب جھوٹے ہیں۔
قاضی صاحب نے فرمایا کہ اگر کوئی مسلمان کسی چیز کو منحوس مانتا ہے یا سمجھتا ہے تو وہ شرعی تعلیمات کے خلاف ہے اس طرح کے عقیدہ سے اعتقادِخدا وندی وتوکل میں کمی واقع ہوتی ہے۔ یہ بات حق ہے کہ کسی چیز کو منحوس مان لینے سے آدمی تذبذب میں پڑجاتا ہے اس کا دل مطمئن نہیں رہتا، شکوک و شہبات کا شکار ہو جاتاہے اور وہ ہمیشہ سوچنے لگتاہے کہ فلاں وقت یا فلاں جگہ اگر وہ کام کرے گا تو اس کو کامیابی نصیب نہیں ہوگی۔ اسلام نے صرف یقین پیدا کرنے کی تعلیم دی ہے اسی لئے زمانہ جاہلیت کے تمام باطل رسوم واعتقاداتِ فاسدہ کی سختی سے مخالفت کی ہے۔ بے بنیاد فاسد عقائد اور باطل افکار سے روکتا ہے اسلام سے قبل دورِ جاہلیت میں بد شگونی بد فالی کابہت زیادہ رواج تھا۔ جہالت اور تو ہم پرستی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔لہذا اس سے بچئے ،ایسے خیالات کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں اور اس کا تقاضائے ایمان سے کوئی واسطہ نہیں۔مسلمان بنئے اور راسخ العقیدہ مسلمان بنئے ،اپنے ایمان کو ایسی رسومات اور خیال بد سے مغلوب ہونے نہ دیجئے ۔ایمان کی پوری توانائی کے ساتھ زندہ رہئے پھر آپ دیکھیں گے کہ کس قدر لطف آتا ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اور آپ کو سیدھی راہ چلائے اور رسومات و بدعات سے بچنے کی توفیق دے۔