نئی دہلی 3اگست:الیکشن کمیشن آف انڈیا نے گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے سامنے ایک حلف نامہ داخل کیا ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ امیدواروں اور ان کے ایجنٹوں کے علاوہ کسی کے ساتھ ووٹر ٹرن آؤٹ ڈاٹا شیئر کرنے کا قانونی طور پر پابندی نہیں ہے۔ ساتھ ہی اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ووٹر ٹرن آؤٹ ڈاٹا کو ظاہر کرنا ووٹرس میں الجھن پیدا کرنے والا ثابت ہو سکتا ہے، اور اس سے قریبی مقابلوں میں ذاتی مفاد حاصل کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے اس معاملے میں سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ ہر پولنگ بوتھ میں ہر ووٹ کو ریئل ٹائم میں ریکارڈ کیا جاتا ہے اور ایک رجسٹر رکھا جاتا ہے۔ کسی بھی وقت پریزائڈنگ افسر کو صرف آخری کالم کو دیکھنا ہوگا اور وہ بتا دے گا کہ اس وقت تک کتنے ووٹ ڈالے جا چکے ہیں۔ دراصل رواں سال ہوئے لوک سبھا انتخاب میں ڈالے گئے ووٹ اور شمار کیے گئے ووٹوں کے درمیان فرق پر مشتمل ایک رپورٹ سامنے آئی ہے۔ اس پر الیکشن کمیشن سے وضاحت کا مطالبہ لگاتار بڑھ رہا ہے اور کمیشن اس پر ابھی تک خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ فکر انگیز معاملہ ہے۔ یہ بات ملک کے سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے اسی ہفتہ ایک نیوز چینل سے بات چیت میں کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ رئیل ٹائم میں جمع کیے گئے ڈاٹا میں کسی بھی طرح کی خامی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ لیکن اگر انتخابی کمیشن کے ذریعہ اَپلوڈ کیے گئے ڈاٹا میں اب بھی خامیاں اور فرق دکھائی دیتی ہیں تو پیدا شبہات کو دور کرنا کمیشن کا فرض اور ذمہ داری ہے۔ ایس وائی قریشی اسی ہفتہ نئی دہلی میں اے ڈی آر (ایسو سی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس) کے ذریعہ جاری ایک رپورٹ کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دے رہے تھے۔ اس رپورٹ کے مطابق انتخابی کمیشن کی ویب سائٹ پر اَپلوڈ کیے گئے ڈاٹا سے ملان کرنے پر اے ڈی آر نے 538 لوک سبھا حلقوں میں خامیاں پائیں۔