مسلمانوں کے بیچ بابا صاحب ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر اور بابائے قوم علی حسین عاصم بہاری جیسی شخصیت کی سخت ضرورت ہے۔بابا صاحب ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکرکی شخصیت سے تو سبھی لوگ واقف ہیں لیکن بابائے قوم علی حسین عاصم بہاری کی شخصیت سے بہت سے لوگ ناواقف ہیں ہمیں ان کی شخصیت کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔خاص طور پر گمنام مجاہدین کو متعارف کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار آئی پی ایس ریٹائرڈ ڈی جی پی چھتیس گڑھ ایم ڈبلیو انصاری نے کیا۔آپ کے جی این اسکول آف ایکسلنس کے ریر اہتمام رسم اجراء پروگرام سے خطاب کر رہے تھے۔
اپنی ساری زندگی غریبوں، مظلوموںکو انصاف دلانے،ذات پات،اُونچ نیچ اور آپسی بھیدبھائوکو ختم کرنے کے لیے وقف کرنے والے عظیم رہنما، دیش رتن علی حسین عاصم بہاری کی حیات و خدمات سے ہر ایک کو واقف ہونا چاہئے۔مذکورہ پروگرام میں بابائے قوم علی حسین عاصم بہاری پر لکھی گئی کتاب کا رسم اجراء بھی عمل میں آیا۔ واضح رہے کی اس کتاب کے مرتب سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس ایم ڈبلیو انصاری ہیں،نیز اس کتاب کو اُردو سے انگریزی زبان میں غلام محمد انصاری نے کیا ہے۔
مذکورہ پروگرام میں کتاب کے رسم اجراء کے علاوہ بے نظیر انصار ایجوکیشنل اینڈر ویلفیئر سوسائٹی کی جانب سے تیار کئے گئے مجاہدین آزادی کے اسٹیکرس کو بھی طلباء کے درمیان تقسیم کیا گیا،یہ اسٹیکرس خاص طور پر اسکولی طلباء و طالبات کے لئے تیار کئے گئے ہیں اور اس کا مقصد صرف طلباء و طالبات کو جنگ آزادی کے عظیم سپوتوں سے روشناس کرانا ہے،اس موقع پر سوسائٹی کے صدر ایم ڈبلیو انصاری نے اسکول کے ذمہ داران سے اپیل کی کہ اسکول انتظامیہ اپنے بچوں کو یہ اسٹیکرس فراہم کرے تاکہ یہ بچے آزادی کی لڑائی میں اپنا سب کچھ قربان والی عظیم شخصیات سے واقف ہو سکے۔حاضرین مجلس نے بے نظیر انصار ایجوکیشنل سوسائٹی کے اس اقدام کی خوب پذیرائی کی اور عزم کیا کہ اپنی سطح پر ہر ممکن کوشش کریں گے جس سے ہمارے آنے والی نسل مجاہدین آزادی سے متعارف ہو سکے۔
سبھی نے یک زبان ہوکر یہ عزم کیا کہ ہر سال پورے اگست کے مہینے میں مجاہدین آزادی کے اسٹیکرس کو بنا کر بچوں میں تقسیم کریں گے اور ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی بھی کریں گے ،ساتھ ہی یہ عزائم بھی کئے گئے کہ برکت اللہ یونیورسٹی کو سنٹرل یونیورسٹی کا درجہ دیا جانا چاہئے اس کے لئے حکومت سے مطالبہ کریںگے،اُردو زبان کے فروغ کے لئے کام کریں گے، قوم و ملت کے لئے فلاحی کام کریں گے۔گمنام مجاہدین آزادی کو متعارف کرانے کی بھرپور کوشش کریں گے، آئین کی دفعہ ۳۴۱؍ (۱۹۵۰ کے صدارتی آرڈر) کو ختم کرنے کیلئے ملکی سطح پر پر تحریک اور مومنٹ چلائی جانا چاہئے اس کے لئے بھی کوششیں کریں گے اور جو بھی نیتا یا پارٹی اسے ختم نہ کرنے کی بات کہے تو ان کا بائیکاٹ بھی ہم سب کریں گے۔پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے دانشوروں نے یہ بھی کہا کہ بابائے قوم علی حسین بہاری پر پی ایچ ڈی بھی ہونا چاہئے اور ان کے نام سے تعلیمی ادارے اور لائبریری بھی کھلنی چاہئے جس کے لئے ہم سب کو محنت کرنے کی ضرورت ہے۔انہوںنے ذات پات کو ختم کرنے کی بات کہی تھی لیکن آزادی کے اتنے سالوں بعد بھی یہ ختم نہیں ہوئی ہے، آج ہمیں عہد کرنا چاہئے کہ ہم ان کی اس مہم کو ضرور آگے بڑھائیں گے اور سماج سے ذات پات کو ختم کریں گے ۔ذاتی مردم شماری کی بھی بات کہی ،اور اس ملک میں تمام مذاہب کے لوگوں کی شراکت کی بات کہی جو آج جمہوری نظام میں آبادی کے تناسب سے نہیں ہو پار ہی ہے ان تمام باتوں کے لئے ہم سب کو مل کر جد و جہد کرنا چاہئے۔
اس پروگرام میں خاص طور پر پروفیسر نگار صاحب چنئی، پروفیسر فاطمہ پرنسپل سی بی ایس ای اسکول چنئی، نعیم صدیقی سابق ڈائریکٹر این آئی سی، پرنسپل کے جی این اسکول آف ایکسلنس خلیق الرحمان صاحب ، وائس پرنسپل عبید الرحمان صاحب ،سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس محترم ایم ڈبلیو انصاری صاحب، اُردو ٹیچر جمع مسعودصاحبہ، اے ایم پی ہیڈ محترم رفعت فاروقی صاحب ،ڈائریکٹر انوار العلوم محترم کلیم اختر صاحب،ڈاکٹر نعیم صدیقی صاحب، ایم ایس حسین صاحب اور بڑی تعداد میں کے جی این اسکول کے بچے واسٹاف موجود رہا۔