بھوپال :12جنوری :(پریس ریلیز)جب بھی ہم لفظ ’مشاعرہ ‘سنتے ہیںتو ہمارے ذہن میں وہ بلیغ اُردو کے اشعار، قطعے وغیرہ آجاتے ہیں۔ اشعار میں شعراء نہایت ہی عمدہ اور ادبی اُردو کا استعمال کرتے ہیں، ہر مصرعہ قافیہ بند ہوتا ہے مطلب یہ کہ مشاعرہ اور اُردو زبان کا بہت گہرا تعلق ہے۔یعنی مشاعرہ کا انعقاد مطلب اُردو کے فروغ کا پروگرام!،ان دنوں بھی جگہ جگہ مشاعروں کا انعقاد ہو رہا ہے۔بھارت کا شاید ہی کوئی شہر ہو جہاں مشاعرہ کا انعقاد نہ ہو رہاہو۔ شمالی بھارت میں تو مشاعروں کی ایک طرح سے باڑھ سی آگئی ہے۔ بمبئی، برہان پور، بھوپال، لکھنؤ اور دیگر جہاں کہیں بھی نمائش، میلہ وغیرہ کا سرکاری پروگرام ہوتا ہے وہاں مشاعرہ ضرور ہوتا ہے۔ امید یہی ہے کہ ان محفلوں سے اُردو زبان کا فروغ ہوگا، اُردو زبان پروان چڑے گی اور عام لوگوں میں بھی اُردو کی تئیں بیداری پیدا ہوگی۔ لیکن۔ ….جب بھی کسی محفل کے منتظمین محفل مشاعرہ کراتے ہیں تو یقینا ان کی نیت اُردو کے فروغ و بقاء کی ہوتی ہے اور اُردو کو پروان چڑھانے کے لئے خوب محنتیں بھی اس محفل کے حوالے سے کرتے ہیں لیکن افسوس تب ہوتا ہے جب اُردو کے نام پر منعقد ہوئی بزم میں اُردو کو محض سرخی کے لئے استعمال کیا جائے۔ پروگرام کے ارد گرد لگے بینر ،پوسٹر یہاں تک کہ اسٹیج فلیکس پر بھی اُردو کو محض ہیڈلائن بنا کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔تو بتائیے اُردو کے فروغ کے نام لیوا اگر اپنی ہی زبان کو حاشیہ پر رکھیں گے تو دیگر لوگوں سے کیا اُمید کی جائے کہ وہ اُردو زبان میں دلچسپی رکھیں گے۔جب ہم اپنے نجی (ذاتی) پروگرامس میں اپنی مادری زبان جسے ہم بھارت کی بیٹی اور ہندی کی بہن اور بھارت کی زبان جو بھارت کی ہر بھاشا کو اپنے ساتھ لئے بھارت کو ایک محبت کے دھاگے میں باندھے ہوئے ہے اور ہم لوگ خود ہی اس بھارت کی بیٹی اور مادری زبان کا یہ حشر کریں گے تو حکومت سے کیا توقع کی جائے کہ سرکار کے زیر اہتمام ہونے والے پروگرام میں وہ اپنے بینر پر اُردو کو جگہ دیں گے؟ ہم کسی بھی سیاسی پارٹی سے کیسے گلہ کریں کہ انہوںنے اپنے جاری کردہ اشتہارات میں سے سبھی زبانوں کا استعمال کیا لیکن اُردو کو ندارد رکھا؟ ہم شہری انتظامیہ سے کیسے درخواست کر سکتے ہیں کہ وہ چوراہے، اسٹینڈ اور اسٹیشن کا نام اُردو میں بھی لکھیں؟
یقینا یہ تبھی ہوگا جب ہم اپنی مادری زبان اُردو کو وہ اہمیت دیں گے جو بھارت کے دیگر خطوں میں اُن کی اپنی مادری زبان کو اہمیت دی جاتی ہے۔اپنے پروگرام میں اُردو کی بات کریں گے ، اُردو کی بقاء و فروغ کی باتیں کریں گے ۔ تھوڑا سا وقت مختص کرکے اُردو کے مسئلے مسائل اور انکے حل پر گفتگو کریں گے تبھی شاید صحیح معنوں میں ہم اُردو کے فروغ میں معاون بنیں گے۔ ہمیں اپنے پروگراموںمیں اُردو کی بقاء و فروغ کی بات کرنا ہوگی، اُردو اساتذہ کی تقریری جو ملک کے مختلف صوبوں میں نہیں ہو رہی ہے بلکہ جان بوجھ کر نہیں کی جارہی ہے اس طرح کے مدعو پر گفتگو کرنا ہوگی، اُردو کے تئیں حکومت کا رویہ جگ ظاہر ہے ہمیں اُردو کے مسئلے مسائل پر بحث بھی کرنی ہوگی ۔کیونکہ اُردو بھارت کی بیٹی ہے ، اُردو ہی بھارت ہے اور بھارت ہی اُردو ہے۔ جب تک اُردو کا رسم الخط اختیار کرنے پر زور نہیں دیا جائے گا ، اُردو میں نصاب کی کتابیں طلباء کو مہیا نہیں کرائی جائے گی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، میتھس وغیرہ جب تک اُردو کا فروغ ہو نہیں سکتا۔بک نگم اُردو نصاب کی کتابوں کی طباعت نہیں کر رہا ہے،ا ردو اساتذہ ، مدرسہ بورڈ اور دیگر اُردو سے متعلق اداروں کو مالی تعاون نہیں مل رہا ہے۔ اس لئے ہمیں اپنی آواز کو ایسے پلیٹ فارم اور منچوںسے بلند کرنا ہوگی۔