بھوپال:14جون: آج نماز جمعہ سے قبل موتی مسجد بھوپال میں قاضی شہر مولانا سید مشتاق علی ندوی مدظلہٗ نے عید الاضحی کے تعلق سے اہل ایمان کی ناواقفیت اور ایسے اعمال جن کے ارتکاب سے ہماری قربانیاں اپنا اثر کھودیتی ہیں ،پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ہر سال ہمارے درمیان عید قرباں کے تاریخی ایام آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں لیکن ہم میں سے آج بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جو اس بات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ اس کی حقیقت کو جانیں اور سمجھیں کہ اس میں ایسی کون سی خصوصیات ہیں کہ اس دن کو قیامت تک کے لئے یادگار قرار دیا گیا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ ایثار و قربانی اور حصولِ رضائے الٰہی کا وہ جذبہ ہی تھا جس کی بنیاد پر اللہ کے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے گھر، وطن، دولت تو چھوڑی ہی بادشاہ وقت سے بھی بغاوت کی، پھر اللہ کی خاطر بیوی اور دودھ پیتے بچے کو بے آب وگیاہ میدان میں بے سہارا چھوڑ آئے اور خود آگ کے دہکتے الاؤ میں ڈالے گئے، یہاں تک کہ اپنی جان ہی نہیں لختِ جگر کی قربانی کے آخری حکم کی بھی تعمیل کی۔ اخلاص و سچائی اور ایثار و قربانی کا یہ ایسا بے نظیر واقعہ ہے جس کی مثال آج تک کوئی قوم پیش نہیں کرسکی، اسی لئے اللہ نے اس بلند ترین عمل کو قیامت تک کیلئے ایک فریضہ کی حیثیت دے دی تاکہ عید قرباں کی تاریخی حیثیت پر نگاہ رکھتے ہوئے بندہ ٔمومن اپنے اندر بھی وہی جذبہ پیدا کرے اور رضائے الٰہی کے حصول کیلئے وہ سب کچھ قربان کردے جو میسر ہو لیکن افسوس کا مقام ہے کہ لوگوں نے اسے بھی رسم بنا ڈالا، نہ اس کی حقیقت کو پہچانا نہ اس کے تقاضے کو سمجھا۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کو نہ جانور کا گوشت اور نہ اس کا خون چاہئے بلکہ مومن کا تقویٰ اور رضائے الٰہی مطلوب ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں ہمارے لئے بڑی نصیحت ہے کہ ہم نے بھی یہی اقرار کیا ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ ہمارا نہیں ہے اللہ کا ہے۔ ہم اللہ کے حکم پر چلیں گے اور اس کے حکم کے سامنے نہ اپنے دل کی بات مانیں گے نہ کسی دوسرے کی خواہش کی پرواہ کریں گے۔
ہم جس طرح جانور کی قربانی کرتے ہیں۔ اسی طرح اپنی نفسانی خواہشات کو بھی قربان کردیں گے تاکہ اختلاف، انتشار بغض و حسد، کبر و غرور، عناد و دشمنی، مکر و فریب اور حق تلفی وجاہ طلبی کے ذریعہ انسانیت کی تباہی کا ذریعہ نہ بنیں بلکہ عظمت و بلندی کا جو معیار قرآن مجید نے بتایا ہے، اسے ہم اپنی زندگی میں بسا لیں۔ ذات برادری، رنگ و نسل اور دولت و غربت کے سارے امتیازات کو مٹا کر اخوت و مساوات، پیار و محبت اور ایک خدا کی عبادت و بندگی کی فضا قائم کریں۔
قاضی صاحب نے فرمایا کہ اس عید کے منانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر قربانی کی وہی روح، اسلام و ایمان کی وہی کیفیت اور خدا کے ساتھ محبت و وفاداری کی وہی شان پیدا ہو جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی میں کیا ہے۔ اگر کوئی انسان محض ایک جانور کے گلے پر چھری پھیرتا ہے اور اس کا دل اس روح سے خالی رہتا ہے جو قربانی میں مطلوب ہے، تو وہ ایک جاندار کاناحق خون بہاتا ہے۔
دور جاہلیت میں لوگ قربانی کرکے اس کا گوشت بیت اللہ کے سامنے لاکر رکھتے اور اس کا خون بیت اللہ کی دیواروں پر ملتے تھے۔ قرآن نے بتایا کہ خدا کو تمہارے گوشت اور خون کی ضرورت نہیں۔
عید الاضحی پر جانوروں کی قربانی اس بات کو یاد دلانے کیلئے کی جاتی ہے کہ اللہ کے دئیے ہوئے جانوروں کو جب ہم اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں تو اپنے اس ایمان کو تازہ کرلیتے ہیں کہ ہماری جان اور ہمارا مال سب کچھ اللہ کا ہے، اور وقت آنے پر ہم اپنی ہر چیز اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار رہیں گے۔
اسوۂ ابراہیمی توحید کی علامت ہے، گناہ تو ہر آدمی سے ہوتے ہیں، کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں لیکن زندگی کا رخ بس ایک ہی ہے، ہماری پوری زندگی کا رخ اسی کی طرف ہونا چاہئے جو بیت الحرام کا رب اور مالک ہے۔ زندگی کا ایک رْخ، ایک قبلہ، ایک مقصد، ایک منزل ہو۔ اس فرمان کے مطابق جس کا اقرار ہم ہر دن کرتے ہیں۔ وہ اقرار ہمارا عملی نمونہ بن جائے ۔
قاضی صاحب نے حاضرین مسجد کی اس امر کی طرف خاص توجہ دلائی کہ مسلمان سنتِ ابراہیمی کی ادائیگی کے موقع پر سرکاری گائیڈلائن پر عمل کریں اور اشتعال انگیزی سے ہر صورت گریز کریں۔
متنازعہ ویڈیوز اور فوٹو کو شیئر کرنے سے ہر حال میں اجتناب برتیں ۔
امن دشمن طاقتیں ریاست اور ملک کا امن خراب کرنے کی سازش کر رہی ہیں۔ ہمیں اخوت و محبت اور بھائی چارگی سے اس کو ناکام بنانے کی کوشش کرنی چاہئے اور امن کے پیغام کو عام کرنا چاہئے۔
افواہوں اور گمراہ کن ویڈیو کو بلاتصدیق شیئر کرنے سے گریز کرنا ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔
شہر کے علمائے کرام اور ائمہ مساجد سے اپیل کی کہ وہ عوام الناس کو تلقین کریں کہ وہ شرانگیز افراد کے بہکاوے میں ہرگز نہ آئیں اور امن و سلامتی کو ہر حال میں برقرار رکھیں ۔ اللہ ہم سب کو عید قرباں کے صحیح معانی ومفاہیم کوسمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آخر میں نماز عید الاضحی کے اوقات کا بھی ذکر کردوں ۔
عید گاہ میں 7بجے،جامع مسجد میں 7.15، تاج المساجد میں 7.30اور موتی مسجد میں 7.45 بجے صبح نماز عید الاضحی ادا کی جائے گی ۔ ان شاء اللہ ۔
آپ حضرات وقت کی پابندی کریں ۔