بھوپال:7جون: اسلامی مہینوں میں آخری مہینہ ذو الحجہ کا ہے، اسلام کے تمام مہینے محترم اور قابل عظمت ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے بعض مہینوں کو خاص فضیلت اور عظمت سے نوازاہے، ان میں سے ایک ذی الحجہ کا مہینہ بھی ہے، جس کا احترام شروع زمانہ سے چلا آرہاہے۔اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں کچھ عبادتوں کو خاص رکھا ہے جس کی وجہ سے اس کی عظمت میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔
مذکورہ باتیں آج موتی مسجد بھوپال میں قاضی شہر مولانا سید مشتاق علی ندوی حفظہ اللہ نے عید الاضحیٰ کے تناظر میں گفتگو کرتے ہوئے فرمائیں ۔قاضی شہر نے حاضرین مسجد سے فرمایا کہ ایک بار صحابہ کرام ؓنے رسول اللہﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ جو قربانی ہم کرتے ہیں، اس کی حقیقت کیا ہے؟ آپ ﷺ نیفرمایا ‘یہ تمہارے جد امجد حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کی سنت ہے’۔ پھر صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ‘اس کے فوائد کیا ہیں؟ فرمایا کہ ’’ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے پھر صحابہ کرام نے عرض کیا (بھیڑ وغیرہ کی) اس میں کیا ملتا ہے؟ فرمایا ان کے ہر بال کے بدلے نیکی لکھی جاتی ہے”۔ قاضی صاحب نے عید الاضحیٰ پر روشنی ڈالتے ہوئے اور کی صراحت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اسلامی سال کا بارہواں اور آخری مہینہ ہے۔اسی ماہ کی9 تاریخ کو مکہ مکرمہ کے مقام عرفات میں وقوف ہوتا ہے جو حج کا رْکنِ اعظم ہے اور دس تاریخ کو حاجی اپنے جانور قربان کرکے ”یوم نحر” مناتے ہیں۔ ماہِ ذی الحجہ کو مختلف عبادات کی وجہ سے خصوصی مقام اور امتیاز حاصل ہے۔اس ماہ حج جیسی عظیم عبادت انجام دی جاتی ہے، اسی مناسبت سے اس کا نام ذی الحجہ ہے یعنی حج والا مہینہ ۔قاضی شہر نے ماہ ذی الحجہ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ ذی الحجہ کا مہینہ زمانہ جاہلیت میں بھی محترم و متبرک سمجھا جاتا تھا اوردور ِ جاہلیت میں اس مہینہ کی عظمت کا پورا پورا خیال کیا جاتاتھا۔ قرآن کریم نے جن چار مہینوں کو”اشہر حرم” قرار دیا ان میں سے ایک ”ذی الحجہ” بھی ہے۔ اشہر حرم کو حرمت والا دو معنی کے اعتبار سے کہاگیا؛ ایک تو اس لئے کہ’ ان میں قتل و قتال حرام ہے، دوسرے اس لئے کہ یہ مہینے متبرک اور واجب الاحترام ہیں۔’ ان میں عبادات کا ثواب زیادہ ملتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں چونکہ اشہر حرم میں جنگ و جدال اور قتل و قتال سے لوگ باز رہتے تھے، یہاں تک کہ ان کے سامنے سے اگر باپ کا قاتل بھی گزرتا تو وہ ان مہینوں کی تعظیم میں اس کو چھوڑدیتے۔ چنانچہ انہی حرمت والے مہینوں میں سے ذوالحجہ بھی ہے۔ نبی کریم کا ارشاد ہے: ” مہینوں کا سردار رمضان اور حرمت میں عظیم ذی الحجہ کا مہینہ ہے۔” ذی الحجہ کا پورا مہینہ ہی قابل ِ احترام ہے لیکن اس کے ابتدائی دس دن اور راتیں تو بہت ہی فضیلت اور عظمت والے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان کی عظمت و اہمیت کو بیان فرمایا اور نبی کریم نے امت کو عشرہ ذی الحجہ کی قدردانی سے آگاہ فرمایا۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔”قسم ہے فجرکے وقت کی اور دس راتوں کی اور جفت کی اور طاق کی۔”(سورۃ الفجر:1، 2، 3). اس میں اللہ تعالیٰ نے تین چیزوں کی قسم کھائی ہے، پہلی قسم فجر کے وقت کی ہے، بعض مفسرین نے اس آیت میں خاص دس ذی الحجہ کی صبح مراد لی ہے۔ دوسری قسم دس راتوں کی کھائی ہے، بیشتر مفسرین نے ان دس راتوں سے مراد ذی الحجہ کے شروع کے دس دن لئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دس سے مراد ذوالحجہ کا پہلا عشرہ ہے اور طاق سے مراد یوم عرفہ ہے اور جفت سے مراد عید الاضحی کا دن ہے۔ حدیث میں نبی کریم ﷺ نے عشرہ ذی الحجہ کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں ان (ذی الحجہ کے) دس دنوں کے نیک عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو۔ صحابہ کرام ؓنے عر ض کیا کہ اے اللہ کے رسول!کیا یہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے؟۔ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے مگر وہ شخص جو جان اور مال لے کر اللہ کے راستے میں نکلے، پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آئے (سب اللہ کے راستے میں قربان کردے اور شہید ہوجائے یہ ان دنوں کے نیک عمل سے بھی بڑھ کر ہے ) ۔
عشرہ ذی الحجہ اور کثرت ِ ذکر: عشرہ ذی الحجہ میں تسبیح و تہلیل اور ذکر کی کثرت کی تلقین بھی نبی کریم ﷺنے فرمائی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
”اور چند مقررہ دنوں میں اللہ کا نام لیں” ان مقررہ دنوں سے بعض حضرات نے ذوالحجہ کا عشرہ مراد لیا ہے۔” (الحج:28)یعنی عشرہ ذی الحجہ میں کثرت سے اللہ رب العزت کا ذکر کرنا بھی سنت انبیاء ہے۔ ایام عید یعنی نو سے تیرہ ذی الحجہ تک ہر فرض نماز کے بعد ”تکبیر تشریق” بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے ۔تکبیر تشریق یہ ہے ۔
”اللّٰہ ا کبر اللّٰہ ا کبر، لا الٰہ الا اللہ ،اللّٰہ اکبر اللّٰہ ا کبر، و للّٰہ الحمد”
پانچ دن تک ہر فرض نماز کے بعد پڑھناہر مرد وعورت پر واجب ہے۔اسی عمل سے ان ایام میں ذکر و تسبیح کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔حج کے ساتھ ساتھ اس ماہ میں جانوروں کی قربانی کرکے عام مسلمان سنت ابراہیمی کو زندہ کرتے ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رب کریم کی فرمانبرداری میں بیٹے کو قربان کرنے کی ہامی بھرلی بلکہ فرزند ارجمند کو لے کر قربان گاہ پہنچ گئے، جس پر رب تعالیٰ کو ان کی یہ ادا ایسی بھائی کہ تاقیامت ان کی سنت کو امت محمدیہ پر واجب کردیا۔اب ہر سال صاحب استطاعت مسلمان ، بیل، بکرے،دنبے وغیرہ کی قربانی کرکے اللہ کی راہ میں خون بہاکر سنت ابراہیمی کو زندہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: آپ کہئے کہ بیشک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت سب اللہ ہی کیلئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ (سورۃالانعام: 162) . ان احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ دس ذوالحجہ یعنی عید الاضحی کے دن قربانی کا عمل رب ذوالجلال کو کتنا پسند ہے۔ قاضی صاحب نے فرمایا کہ قربانی کے جانور سے محبت کرنا،اس کا خیال رکھنا، اس کو اچھے طریقے سے خوراک دینا اور پھر اپنے سامنے اسے ذبح کروانے کی ترغیب بھی احادیث میں تواتر سے ملتی ہے۔حضور نبی کریم ﷺ کا ہر سال قربانی کرنا قربانی کی اہمیت، فضیلت اور تاکید کیلئے کافی ہے۔
جہاں قربانی کرنے کے اتنے اجر و ثواب بتائے گئے ہیں وہاں صاحب استطاعت ہوتے ہوئے قربانی نہ کرنے پر وعیدیں بھی ہیں جیسے :حضرت ابو ہریرہ رضی ا للہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:” جو شخص قربانی کرنے کی گنجائش رکھتا ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔”(ابن ماجہ)
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بے حد مہربان ہے جہاں بندہ تھوڑی سی فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ رب تعالیٰ اس پر انعامات کی بارش فرمادیتے ہیں ۔ الغرض! ماہ ذی الحجہ سنت و شریعت کے اعتبار سے اہم ترین ماہ ہے۔ اسے قیمتی جان کر اس کی فضیلتوں کو سمیٹ کر رب کی خوشنودی حاصل کرنے میں ہی ہر مسلمان کی فلاح و کامیابی ہے۔ البتہ اس قربانی کا اصل مقصد بکری، بھینس، بھیڑ یا اونٹ کو ذبح کرنا نہیں بلکہ تقویٰ حاصل کرنا ہے۔
اللہ کوآپ کی قربانی کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا بلکہ اس تک آپ کا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اس موقع سے ایک امر کی طرف میں خاص طور پر اشارہ کرتا چلوں کہ قربانی کے دن مسلم علاقوں میں ہر طرف خون ہی خون ہوتا ہے، مذبوح جانوروں کا گوشت، سڑکوں پر ان کی کھالیں، راستوں اور چوراہوں میں انتڑیاں اور فضلات ،نالیوں میں خون کی طرح بہتا سرخ رنگ کا پانی۔یہ سب چیزیں جہاں اہل ایمان کی نفاست و طہارت پر سوال اٹھا رہے ہیں وہیں قربانی کے عمل میں ہماری بیجا تشہیر کو اجاگر بھی کررہے ہیں
۔آپ اچھی طرح جان لیں کہ اسلام کو نہ تشہیر پسند ہے نہ غلاظت و تعفن ۔اخلاص سے جہاں ہمارے نیک عمل کی مقبولیت مشروط ہے وہیں نفاست و طہارت کو اسلام نے نصف ایمان قرار دیا ہے ۔اب ہم خود سوچیں کہ قربانی کے ایام میں ہمارے محلوں کا جو نظارہ ہوتا ہے ،یہ کہاں تک درست ہے؟ لہذا اس خاص امر کی طرف توجہ رکھنا ہم سب کی اولیں ذمہ داری ہے ۔
قربانی کے جانوروں کے فضلات بھوپال میونسپل کارپوریشن کی طرس سے جا بجا رکھے گئے کچرا ٹب میں ہی ڈالیں،تاکہ ان فضلات کو کارپوریشن کے اہلکار اٹھاکر لے جائیں،قربانی کے بعد سڑک یا جس مقام پر قربانی کی گئی ،اسے پانی بہاکر اچھی طرح صاف کردیں۔اس ضمن میں ان شاء اللہ آئندہ جمعہ اس پر مزید روشنی ڈالی جائے گی ۔ خالق دو جہاں ہمیں شریعت کے عین مطابق نیک عمل بجا لانے کی توفیق بخشے (آمین )