عوام کی امیدیں، غریبوں کی آس، کسانوں کی امید اور ملک کے کروڑوں باشندوں کی محنت، آج پارلیمانی انتخابات کے نتائج آگئے۔انتخابات جمہوریت کا سب سے بڑا جشن ہو تا ہے۔ Exact poll نے Exit Poll کی ہوا نکالتے ہوئے بر سر اقتدار پارٹی کے پیروں تلے زمین کھسکا دی ہے۔ اب من کی بات من میں ہی رہ گئی ہے اور ڈھنگ کی بات کرنے کا وقت آگیا ہے۔بر سر اقتدار پارٹی نے جو شور مچایا ہوا تھا یا یوں کہیں جو سپنے سجائے ہوئے تھیـ’ اب کی بار چار سو پار‘ وہ تو چکناچور ہوگئے ہیں اور نتیجے بھی ان کی اُمید سے پرے آئے ہیں۔لیکن بہرحال اب باری ہے صحیح معنوں میں ملک کے آئین (سنودھان) کو بچانے کی۔ جو اتحاد ملک کے باشعور لوگوں نے دکھایا ہے اس کا پھل ملنے کا اب موقع ہے۔
جیسے جیسے الگ الگ صوبوں سے خبریں موصول ہوتی گئیں ویسے ویسے تصویر صاف ہوتی گئی کہ ملک کے کروڑوں لوگ اب بی جے پی اور مودی کو نہیں چاہتے،اب عوام میں سیاسی اور سماجی شعور آگیا ہے اور جنتا سمجھ گئی ہے کہ بر سر اقتدار پارٹی نے پچھلے ۱۰؍ سالوں میں سوائے مذہب پر سیاست کرنے ، مسجد -مندر پر لوگوں کو لڑانے اور اس ملک کے سرمائے کو مفرور لوگوں کے سپرد کرنے کے کوئی اور کام نہیں کیا ہے،اس چنائو میں لڑائی تھی بے روزگار نوجوانوں کی، پہلوان کھلاڑیوں کی، کسانوں کی، عام جنتا کی، روزی روٹی، نوکری اور ایم ایس پی کی۔ پرانی پنشن اسکیم کی اور اگنی ویر سیوا کی۔حالانکہ بی جے پی نے رام مندر کے نام پر ووٹ لینا چاہے لیکن ملک کی عوام نے انہیں بتا دیا کہ اب وہ بیدار ہوچکے ہیں اور ان کی گندی سیاست کا حصہ بننے والے نہیںہیں اسی لئے ایودھیا سے بی جے پی کے امیدوار ساکیت مشرا کو قراری شکست ہوئی ہے، اور اتنا ہی نہیں بی جے پی کے سب سے بڑے چہرے وزیر اعظم نریندر مودی بھی محض ڈیڑھ لاکھ ووٹ سے جیتے ہیں جو کوئی بہت بڑی ووٹوں کی تعداد نہیں ہے،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جنتا نے انہیں مسترد کر دیا ہے۔
جب راجہ اپنی کامیابی کو چھوڑ کر اپوزیشن میں خامیاں تلاش کرنا شروع کردے تو سمجھ لیجئے کہ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔یہی حال وزیر اعظم مودی، ان کے تمام وزراء اور بی جے پی کا ہے کہ اب انکے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا ہے۔
انتخابات کی تشہیر کے دوران اور اس سے قبل بھی بی جے پی نے اپنی پوری طاقت جھونک دی ۔ رام مندر، آرٹیکل 370، تین طلاق، سی اے اے -این آر سی اور نہ جانے کیا کیا مدعے لائے لیکن کوئی بھی حربہ کام نہیں آیا اور عوام نے سیاسی سماجی شعور کا ثبوت دیا اور بی جے پی کو عرش سے فرش پر لاکھڑا کیا اور اوقات یاد دلا دی۔
اب جبکہ نتائج سامنے آچکے ہیں اب باری ہے ملک کے آئین کی حفاظت، جمہوریت کی بقا اور ایک امن پسند حکومت بنانے کی، اس میں کلیدی کردار راہل گاندھی، ملکہ ارجن گھڑگے اور دیگر انڈیا کے کارکنان کا ہو سکتا ہے کہ وہ نتیش کمار اور چندر بابو نائیڈو کو بھی اپنی طرف لائیں اور اس اتحاد کو مزید بڑھا کر اس ملک میں اپنی حکومت بنائیں ۔
اس کے لئے چند ضروری فیصلے انڈیا اتحادکو فوری طور پر لینا ہوں گے ،اول تو یہ کہ انڈیا اتحاد کو فیصلہ کرنا چاہئے کہ حکومت بننے کی صورت میں وزیر اعظم ملکہ ارجن گھڑگے ہوں گے، نیز نتیش کمار ڈپٹی پی ایم اسی طریقے سے چندر بابو نائیڈو کو صحیح مقام و مرتبہ دینا چاہئے بلکہ نائیڈو جی کی پارٹی کو اسپیکر کا عہدہ اور ساتھ ساتھ کابینہ میں صحیح مقام و مرتبہ دیا جائے نیز بہار پردیش کو بھی معقول نمائندگی کے ساتھ ساتھ غریب پردیش ہونے کے ناطے خصوصی حیثیت (Special Status) اور اقتصادی پیکج( economical package) دیا جائے۔آندھرا پردیش اور بہار دونوں صوبوں کو یہ خصوصی حیثیت دی جائے کیونکہ یہ سب سے پچھڑے اور غریب صوبے ہیں۔
چونکہ اس چنائو میں ہر صوبے کے لوگوں نے بہت ہی اہم کردار ادا کیا ہے اسلئے اندیا اتحاد (گٹھ بندھن) کو چاہئے کہ ہر ہر صوبے کے لوگوں کو ذمہ داری دے، اس سے عوام کا بھروسہ مزید بڑھ جائے گا،کیونکہ ہر پارٹی نے مسلم سے ووٹ لینے کی بات تو کہی لیکن کسی نے بھی نمائندگی دینے کی بات نہیں کہی اب انڈیا کو چاہئے مسلم امیدواروں کی بھی آبادی کے تناسب سے ذمہ داری طے کرے۔
یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے کہ نتیش کمار اور چندر بابو نائیڈو دونوں رہنمائوں کے نظریات (ideology) بی جے پی اور آر ایس ایس سے نہیں ملتی ہے ۔یہ دونوں رہنما منو واد اور پونجی واد کے سخت خلاف ہیں اور دونوں نے ہی ذاتی مردم شماری کی بات کہی ہے اور آبادی کے تناسب سے سبھی سیاسی پارٹیوں میں نمائندگی کی بات کہی ہے اور کہتے آرہے ہیں اسلئے اگر بی جے پی انہیں کسی طرح اپنے ساتھ ملا بھی لے تب بھی ان کا یہ گٹھ بندھن (اتحاد) زیادہ دیرپا نہیں ہو سکتا اور اگر یہ دونوں رہنما این ڈے اے کے ساتھ جاتے ہیں تو اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ انہیں دونوں پارٹیوں کے پاس ہونا چاہئے اسی طرح ہوم منسٹری ، فائیننس منسٹری بھی انہیں کے پاس ہونا چاہئے تاکہ بی جے پی کے لوگ ای ڈی ، سی بی آئی ، این آئی اے اور دیگر سرکاری محکموں کا بے جا استعمال کرتے ہوئے خرید و فروخت نہ کرسکے اور ڈرامے دھمکانے کا کام ختم ہو سکے اور اپوزیشن کو جیل میں بھیجنے کا کام بند ہو سکے۔ اس لئے امید یہی ہے کہ نتیش کمار صحیح کا ساتھ دیں گے اور چندر بابو نائیڈو بھی آندھرا کے مستقبل کو دھیان میں رکھ کر صحیح قدم اُٹھانا چاہیں گے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ نتیش کمار سب کے ہیں لیکن اب انہیں ملک کی خدمت کرنا ہے ، جمہوریت کو بچانا ہے اور اس ملک بھارت میں امن و امان قائم رہے اس کے لئے خود کو پیش کرنا ہے،یہ بھی ممکن ہے بر سر اقتدار پارٹی انہیں خریدنے کے لئے مال و دولت کا لالچ دے یا پھر انہیں حراساں بھی کیا جا سکتا ہے لیکن انہیں ثابت قدم رہ کر بابا صاحب کے آئین کو بچانا ہے،جنتا کی امیدوں پر کھرا اُترنا ہے اور ـ’نتیش سب کے ہیں‘ جملے کو سچ ثابت کرکے دکھانا ہے۔اس ملک کے باشندے ایک نئی صبح کا انتظار کر رہے ہیں،اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاست کا رُخ کس طرف جاتا ہے۔