مالیگاؤں (نامہ نگار) : دیارِ اردو مالیگاؤں دِل والوں کی بستی ہے، یہاں کے لوگ مردہ پرست نہیں ہیں بلکہ زندہ لوگوں کے قدر دان ہیں، جشنِ سلیم شہزاد اِس کی زرین مثال ہے _ ان کلمات کا اظہار این سی ای آر ٹی، دہلی کے شعبہءِ اردو کے پروفیسر ڈاکٹر نعمان خان (بھوپال) نے جشنِ سلیم شہزاد کے موقع پر خطبہءِ صدارت پیش کرتے ہوئے کیا _ آپ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سلیم شہزاد نے اردو زبان و ادب کے ہر شعبے میں اپنے فکر و مزاج کی انفرادیت کے ساتھ کامیاب کوششیں کی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے _ شاعری، ناول نگاری، تحقیق اور تنقید کے ساتھ ان کا سب سے بڑا کارنامہ فرہنگ نویسی ہے، لسانیات اور قواعد کے بارے میں اِن کی رائے اکثر حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہیں _ این سی ای آر ٹی، دہلی نے آپ کی صلاحیتوں سے خوب استفادہ کیا، بچوں کے لیے لغت ترتیب دی، تاریخ اردو ادب مرتب کی _ درسی کتابوں کی فرہنگ ترتیب دی _ آج درس و تدریس کے ساتھ اردو زبان و ادب کی دنیا میں سلیم شہزاد مالیگاؤں کی شناخت اور پہچان ہیں آپ سے قبل سلیم شہزاد کی شخصیت اور فکر و فن کے حوالے سے اظہارِ خیال کرنے والوں میں ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط ،چیئرمین بال بھارتی اردو نے سلیم شہزاد کی غالب شناسی پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ فرہنگِ لفظیاتِ غالب صاحبِ اعزاز کا منفرد کارنامہ ہے، اِس کی مدد سے غالب کی شاعری کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے _ سلیم شہزاد نے غالب کی شاعری کے ساتھ اِن کے خطوط پر بھی اہم تحقیقی کام کیے ہیں جسے ہند و پاک کے معتبر رسائل نے شائع کیے _ شہر کے معروف شاعر و ادیب، محقق و نقاد ڈاکٹر اشفاق انجم نے سلیم شہزاد کی تقدیسی شاعری کے حوالے سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سلیم شہزاد کی شاعری کو سمجھنے کے لیے اعلیٰ دماغ کی ضرورت ہے۔
یہ معمولی شخص نہیں ہیں _ اِن کے فکر و فن کا جائزہ لینے کے لیے اہلِ علم حضرات کی مجلس تشکیل دی جائے، تحقیق کی جائے اور تحقیقی مقالات شائع کیے جائیں _ ڈاکٹر ناصرالدین انصار (ناظرِ تعلیمات و اردو فارسی بورڈ کے رکن) نے سلیم شہزاد کی لسانیات شناسی کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ یہ اردو زبان کے مزاج شناس ہیں، زبان کو برتنے کے معاملے میں حساس ہیں اس لیے کبھی بھی غلط تلفظ و ترکیب کو برداشت نہیں کرتے، فرہنگ ادبیات، جیم سے جملے تک ان کی لسانیات شناسی کا مظہر ہیں _ اردو لرنرز واٹس اپ گروپ مہاراشٹر اور اہلیانِ مالیگاؤں نے جشنِ سلیم شہزاد کا انعقاد کرکے انہیں دوسرا نذرالاسلام بننے سے بچا لیا _ انشائیہ نگار ڈاکٹر محمد اسداللہ نے سلیم شہزاد کی درسی کتب کی تیاری میں حصہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سلیم شہزاد بال بھارتی کی اردو لسانی کمیٹی کا ستون ہیں، یہ ہمارا سرمایہ افتخار ہیں۔
_ اسباق کے انتخاب، مشقوں کی تشکیل، معنی و اشارات کے ساتھ قواعد کے حصے کی ترتیب و تدوین میں سلیم شہزاد کا رول ہمیشہ نمایاں رہا ہے _ ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ معروف ناول نگار و شاعرہ پروفیسر (ڈاکٹر) صادقہ نواب سحر نے سلیم شہزاد کو کثیر جہتی شخصیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اردو زبان و ادب کے ہر شعبے میں کامیاب کوشش کی ہے اور اردو کے ساتھ دیگر زبانوں کے لٹریچر کا خوب مطالعہ کیا اس لیے ان کی تحقیق اور تنقید کو اعتبار اور وقار حاصل ہے _ انہوں نے سچ کہنے میں کبھی جھجک نہیں دکھائی _ صاحبِ اعزاز کی دختر ڈاکٹر تحسین خان نے سلیم شہزاد کو گھر کے آئینے میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہم سب بھائی بہنوں کی تربیت خوب کی _ ہمارے گھر میں کھلونوں سے زیادہ کتابیں رہی ہیں۔
_ ڈاکٹر حفظ الرحمان (شہروز خاور) نے بہترین تہنیتی نظم پیش کی _ ظہیر قدسی کی نظم نیم کا پیڑ جس میں سلیم شہزاد کی ادبی زندگی کے احاطہ کیا گیا تھا اسے ڈاکٹر مبین نذیر نے پیش کیا،سحرِش شیخ نے خوبصورت اردو خطاطی پر مبنی فریم پیش کی اور انگلش میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا ناگپور کے مورخ شاعر و ادیب ڈاکٹر شرف الدین ساحل نے سلیم شہزاد کی فکر کو خیر پسند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی تقدیسی شاعری میں عشق خدا و رسول کا تقدس دکھائی دیتا ہے۔
_ اقبال مسعود (بھوپال اردو اکیڈمی کے سابق سکریٹری) نے اختصار و جامعیت کے ساتھ سلیم شہزاد کے فکر و فن کے ساتھ دوستی اور انسان نوازی پر گفتگو کی اور صاحبِ اعزاز کو عصرِ حاضر کا بہترین ادیب اور ناقد قرار دیا _ اردو لرنرز واٹس اپ گروپ مہاراشٹر کے ایڈمن اور بال بھارتی پونہ کے اسپیشل آفیسر برائے اردو فارسی عربی خان نوید الحق نے وجہ تقریب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جشنِ سلیم شہزاد فرضِ کفایہ تھا اور یہ سعادت ہمیں حاصل ہوئی _ آپ کے دستِ مبارک سے ہی صاحبِ اعزاز کی خدمت میں ایک لاکھ گیارہ ہزار ایک سو گیارہ روپے کا کیسہءِ زر پیش کیا گیا۔
_ شہر کی مختلف ادبی انجمنوں، شخصیات اور دوست احباب و رشتہ داروں نے صاحب اعزاز کی خدمت میں گلدستہ، پھولوں کا ہار، تحفہ اور شال پیش کیا استقبالیہ کمیٹی کے صدر اشفاق لعل خان سر نے مہمانوں کی خدمت میں استقبالیہ کلمات پیش کیے، رضوان ربانی نے مہمانان کا تعارف اور ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی نے اغراض و مقاصد بیان کیے، حکیم ضیاء الرحمان نے قرات، محمد حسنین اشرفی نے کشفیہ سے نعت پیش کی، طاہر انجم صدیقی اور یاسین اعظمی نے مشترکہ طور پر نظامت کے فرائض انجام دیے اور سید خالد نے فرض شکریہ ادا کیا۔