ایراپلّی پرسنّا :ہندستان کا وہ جارح اسپنر ، جو ہر گیند پر وکٹ لینے کا خواہشمند تھا

0
14

نئی دہلی، 22 مئی (یو این آئی)جب کبھی بھی ہندوستانی کرکٹ میں بہترین اسپنروں کی بات ہوتی ہے تو ساٹھ اور ستر کی دہائی کے اسپن کوارٹیٹ کی بات ضرور ہوتی ہے۔ ایراپلی پرسنا بھی اس چوکڑی کا ایک اہم ستون رہ چکے ہیں ۔ دائیں ہاتھ کے آف بریک اسپنر پرسنا نے بشن سنگھ بیدی، بھگوت چندر شیکھر اور ایس وینکٹاراگھون کے ساتھ مل کر ہندستان کے لئے ایک زبردست اسپن اٹیک بنایا ہو ا تھا۔ 1960-70 کی دہائی میں یہ کرکٹ کا وہ دور تھا جب ہندوستان کے ان چار اسپنروں نے مخالف بلے بازوں پر راج کیا۔ یہ چاروں اسپنرز ٹیم انڈیا کی کئی عظیم فتوحات کے ہیرو بھی رہ چکے ہیں۔ ایراپلی اننتراو سری نواس پرسنا، جنہیں پرسنا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے،22 مئی 1940 کو بنگلورو، کرناٹک میں پیدا ہوئے۔ دائیں ہاتھ کے آف بریک اسپنر اور دائیں ہاتھ کے بلے باز ہیں۔ وہ ان چند کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنے کرکٹ کیریئر کے دوران مکمل ٹیسٹ کرکٹ، فرسٹ کلاس کرکٹ اور لسٹ-اے کرکٹ میچز کھیلے۔
انہوں نے رنجی ٹرافی میں کرناٹک کی دو بار قیادت کی۔کرکٹ آج پیشہ ورانہ کھیل بن چکا ہے۔ ہندستان کے کئی موجودہ کرکٹرز نے کیرئیر کی خاطر اپنی پڑھائی درمیان میں ہی چھوڑ دی اور کھیل میں اعلی مرتبہ حاصل کیں ۔ان میں سب پرسنا بھی ایک ہیں۔ پرسنا ایک ہونہارطالب علم کے ساتھ ساتھ ایک اچھے کرکٹر بھی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کرکٹ کیرئیر شروع کرنے کے بعد بھی تعلیم حاصل کی اور اس کے لیے وقفہ بھی لیا۔اپنے دائیں ہاتھ سے آف اسپن گیند کرنے والے پرسنا پڑھائی میں دوسرے طالبا سے سبقت لئے ہوئے تھے۔پڑھائی کے ساتھ کرکٹ کھیلتے ہوئے انہوں نے جلد ہی ایک بہترین اسپنر کے طور پر شہرت حاصل کی۔ پرسنا نے 1961 میں حیدرآباد کے خلاف میسور کے لیے اپنا رنجی ڈیبیو کیا۔ انہوں نے اپنے پہلے میچ میں ہی تین وکٹ لیے۔ اس کے بعد ان کی کارکردگی میں مسلسل بہتری آتی گئی۔پرسنا کو آف سوئنگ میں مکمل مہارت حاصل تھی اور اسی مہارت کا فائدہ اٹھا کروہ بلے بازوں کو چکمہ دیتے تھے اور ان کے پاس بلے بازوں کو پریشان کرنے کی بہت سی چالیں تھیں ۔ وہ اچھی پچوں پر بھی کھیلنے کے لیے سب سے مشکل آف اسپن باؤلرز میں سے ایک تھے، اور اپنی پراسرار دھوکہ دہی کی وجہ سے انھیں شطرنج کے گرینڈ ماسٹر کی صلاحیت کا حامل کرکٹر سمجھا جاتا تھا۔ پرسنا نے مدراس کے لیے 1961 میں انگلینڈ کے خلاف 21 سال کی عمر میں ڈیبیو کیا۔ ان کا ویسٹ انڈیز کا پہلا غیر ملکی دورہ مشکل تھا اور انہوں نے پانچ سال تک دوسرا ٹیسٹ نہیں کھیلا۔