بھوپال:13:مئی:(پریس ریلیز)بھوجپوری فلموں کے بانی، دیش رتن، مجاہد آزادی ،بھارتی فلم اداکار، نذیر حسین صاحب آج ہی کے دن ۲۲؍مئی ۱۹۲۲؍ کو پیدا ہوئے تھے۔آپ ایک بھارتی فلمی اداکار، ہدایت کار اور منظر نویس تھے۔ہندی سنیما میں تقریباً 500 فلموں میں آپ نے بہت ہی اہم اور کلیدی رول ادا کیا۔
لاجواب شخصیت اور متاثرکن آواز کے مالک نذیر حسین بھارت کی ریاست اترپردیش کے ضلع غازی پورکے گائوں اسیا ، دلدارنگر ٹائون میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ریلوے گارڈ تھے۔ نذیر حسین کی پرورش لکھنؤ میں ہوئی۔ انھوں نے تھوڑے عرصے کے لیے برطانوی فوج میںبھی کام کیا۔ پھر وہ سبھاش چندر بوس سے متاثر ہوکر اویسا گائوں کے ہی مجاہد آزادی حاجی احمد علی کے ساتھ انڈین نیشنل آرمی (آئی این اے) میں شامل ہوئے۔یہ دونوں اوسیا گائوں کے مجاہدین آزادی ساتھ ساتھ انڈین نیشنل آرمی (آئی این اے) میں شامل ہو کر ملک کی آزادی کے لئے برما، سماترا، ملیشیا وغیرہ ملکوں میں رہ کر ملک کو آزاد کرانے کیلئے جدوجہد کرتے رہے جس کے نتیجے میں دونوں کو جیل بھی جانا پڑا، یہی وجہ ہے کہ آخری سانس تک دونوں میں گہری دوستی رہی۔نذیر حسین کی بالی وڈ میں جانے کی ایک بڑی وجہ ان کی آئی این اے سے وابستگی تھی۔ نذیر حسین نے بھارت کے بے بدل ہدایتکار بمل رائے کے ساتھ مل کر فلم ’’پہلا آدمی‘‘ بنائی۔ یہ فلم آئی این اے کے تجربے کی بنیاد پر بنائی گئی تھی۔ برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد نذیر حسین کو حریت پسند قرار دیا گیا۔ انھیں زندگی بھر کے لیے مفت ریلوے پاس دے دیا گیا۔ ان دنوں بمل رائے اور سبھاش چند بوس آئی این اے پر فلم بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ آئی این اے ارکان کی تلاش میں تھے تاکہ وہ ان کی معاونت کریں۔ نذیر حسین کی شخصیت اور خوبصورت آواز نے بمل رائے کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ تاہم نذیر حسین فلموں میں کام کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ کیونکہ ان کا پس منظر فلمی نہیں تھا۔ ان کے دوستوں نے انھیں فلموں میں کام کرنے کے لیے قائل کیا۔ ’’پہلا آدمی‘‘ 1950ء میں ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد وہ بمل رائے کی فلموں کا لازمی حصہ بن گئے۔ کریکٹر ایکٹر کی حیثیت سے شائقین فلم نے ان کی بہت پزیرائی کی۔ انھوں نے ان گنت سپرہٹ فلموں میں کام کیا۔ وہ جذباتی مناظر خاص طور پر فلموں میں باپ کے کردار کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔نذیر حسین کو ہمیشہ اس بات کا رنج رہا کہ بھوجپوری سینما کی ترقی اور نشو و نما دیکھنے سے پہلے ہی سابق بھارتی صدر راجندر پرشاد چل بسے۔نذیر حسین جس فلم میں بھی ہوتے تھے اپنا نقش چھوڑ جاتے تھے۔ بھارت کے سابق صدر راجندر پرشاد سے ایک تقریب میں نذیر حسین نے ملاقات کی۔چونکہ نذیر حسین یو پی کے ضلع غازی پور سے تعلق رکھتے تھے انھیں جب یہ علم ہوا کہ راجندر پرشاد کا تعلق بھی غازی پور سے ہے تو وہ ان سے ملنے کے لیے بے تاب ہو گئے۔ ملاقات کے دوران میں انھوں نے سابق بھارتی صدر سے بھوجپوری سینما کے بارے میں تفصیلی بات چیت کی۔ سابق بھارتی صدر نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انھیں تلقین کی کہ وہ بھوجپوری زبان میں فلمیں بنائیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے اپنے بھرپور تعاون کی بھی پیشکش کی۔ بعد میں ہندی فلموں کے اس ایکٹر نے بھوجپوری سینما کی نشو و نما میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ وہ ہندی فلموں کے ساتھ ساتھ ایکٹر، ڈائریکٹر اور سکرین رائٹر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ پہلی بھوجپوری فلم ’’گنگا میا تو ہے پیاری چادہائی بو‘‘ کی تکمیل میں نذیر حسین نے جو کردار ادا کیا اس کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے۔ ان کی بھوجپوری فلم ’’بالم پردیسیا‘‘ بھوجپوری فلمی صنعت کی تاریخ میں اہم حیثیت رکھتی ہے۔ نذیر حسین کی بھوجپوری زبان میں فلمیں سماجی مسائل کے گرد گھومتی تھیں۔ ان کی فلموں میں جہیز کا مسئلہ اور بے زمین کسانوں کی مشکلات اہم ترین موضوعات تھے۔ جوان لڑکی کے مجبور باپ کے کردار میں ان کی اداکاری دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ انھوں نے اپنی فلموں میں ظالم زمینداروں اور سرمایہ داروں کی مکاریوں کو بے نقاب کیا۔ آج بھوجپوری فلموں میں انتہائی پھوہڑپن آگیا ہے جس کے لئے بھوجپوری فلموں کے کلاکار، سنگیت کار سب ذمہ دار ہیں۔
بھوجپوری زبان کی مٹھاس و شیرینی کو بچانا ہے اور اس کی وراثت کو بچانا ہے۔بھوجپوری زبان اور تہذیب و تمدن میں کبھی پھوہڑپن، گھٹیا قسم کی زبان وغیرہ کا استعمال نہیں ہوا ہے لیکن آج اس کے معیار میں گراوٹ دیکھنے کو مل رہی ہے، حالانکہ بھوجپوری اُردو کی طرح انتہائی عمدہ اور میٹھی زبان ہے جس سے سننے اور بولنے والوں کو لذت محسوس ہوتی ہے ایسی پیاری اور عمدہ زبانیں آج زوال کا شکار ہیں، آج ان کے تحفظ کی ضرورت ہے۔آج بھوجپوری تہذیب میں جس طریقے کا پھوہڑپن آگیا ہے اس کی صفائی کرنے کی ضرورت ہے۔اس سب کے لئے جو لوگ یا جو کلاکار ذمہ دار ہیں ان کا بائیکاٹ کرنا چاہئے اور جس طرح کی شفافیت نذیر حسین بھوجپوری فلموں میں چھوڑ کر گئے تھے وہ دوبارہ واپس لانے کی کوشش ہم سب کو اور خاص کرکے بھوجپوریوں کو کرنا چاہئے۔
بے مثال خوبیوں کے مالک نذیر حسین 1987 میں اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے لیکن ان کی شخصیت تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ان کے گائوں کو آج بھی ان کے نام سے یادکیا جاتا ہے،اسیا گائوں میں جہاں ایک طرف نذیر حسین جیسے بے مثل کلاکار ہوئے وہیں دوسری طرف اسی مٹی سے کئی مجاہدین آزادی بھی پیدا ہوئے،ابھی حال ہی میں گائوں اسیا کی سائمہ سراج خان نے آئی اے ایس (IAS)بن کر اپنے گائوں کا نام روشن کیا ہے۔