دہلی:10؍مئی:(ارشاد احمد اعظمی) مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندوی کا کام ہی تھا لکھنا اور مختلف مناسبات میں تقریریں کرنا ، میں نے دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں علی میاں ندوی مرحوم کے دور نظامت میں چار سال گزارے لیکن ایک دن بھی ان کو کسی کلاس میں درس دیتے نہیں دیکھا ۔وہ تحریر کے دلدادہ تھے اور محنت سے لکھتے تھے اس لئے ان کی پذیرائی تھی ، وہ طلبہ کو بھی تحریر کی ترغیب دیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ جو تحریری ذخیرہ چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگا دنیا اس کو مدتوں یاد رکھے گی ۔تعلیم گاہوں کے قابل اساتذہ بھی یاد رکھے جاتے ہیں اور بسا اوقات فیض حاصل کرنے والوں کے دلوں میں ان کی عقیدت گہری ہوتی ہے ، لیکن تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کا دائرہ محدود ہوتا ہے اور ان سے استفادہ کرنے والوں کے خاتمے کے بعد ان کے نشانات مٹ جاتے ہیں ۔
علی میاں ندوی میں جب تک طاقت تھی خود مطالعہ کرتے اور اس کے نچوڑ کو ضبط تحریر میں لاتے تھے ، جب ان کے قوی نے ساتھ چھوڑ دیا تو دوسروں کی مدد کا سہارا لیا ، لیکن اخیر وقت تک انھوں نے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا ۔ ان کی چھوٹی بڑی تصانیف اور عربی و اردو میں تقاریر جن کو کتابوں کی شکل دے دی گئی وہ بے شمار ہیں اور ہر شخص اپنی صلاحیت اور ظرف کے مطابق ان سے استفادہ کرتا ہے ، ہمارے دور میں جب علی میاں ندوی مرحوم ندوہ میں قیام پذیر ہوتے تو مغرب کی نماز کے بعد ممتاز طلبہ کو مہمان خانے میں جمع کرتے اور اپنی عربی تصنیف’’ الأرکان الأربعہ‘‘ کا درس دیتے تھے ۔
علی میاں ندوی مرحوم نرم خو تھے ، عام افادیت کے لئے انھوں نے کتابیں لکھیں لیکن گلا دبا کر کسی کو پڑھنے پر مجبور نہیں کر سکتے تھے ، جن کو غرض تھی انھوں نے ان کتابوں کو حاصل کیا اور پڑھا اور جن کے مقدر میں جہالت تھی یا ان کا علم علی میاں ندوی مرحوم کے علم سے زیادہ تھا انھوں نے ضرورت نہیں سمجھی ۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کسی کو کسی شخص اور اس کے حلقے سے چڑھ اور عداوت ہو ، ایسا شخص جاننے کے بعد بھی کہ فلاں شخص علم و فضل کا گراں قدر خزینہ ہے وہ اس کے قریب نہیں جائے گا بلکہ الٹے دوسروں کو بھی ورغلائے گا کہ اس کے پاس نہ جائے ، مولانا مودودی رح کی تصانیف کو لے کر عموما ہی ایسا ہی ہوتا ہے ۔