چند اہم گذارشات
بھوپال :6؍مئی :تمام علماء کرام اوراصحاب خیر حضرات کی طرف سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسجد میں آنے والے ہر نمازی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ کے گھر کی ہر چیز کی ذمہ داری لے اور اس کی دیکھ بھال کرے تاکہ مسجد کی تمام ضروریات کے لیے ہمیں کسی اور ذریعہ سے رقم کی ضرورت نہ پڑے، جس کے لئے مساجد میں آنے والے نمازیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان ہدایات پر عمل کریں:
٭مسجد کے آداب میں ہے کہ جب بھی مسجد میں داخل ہوں تو پہلے دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کریں، اعتکاف کی نیت کریں، مسجد میں اپنا موبائل بند رکھیں، دنیاوی باتیں نہ کریں۔
٭امام اور مؤذن کی عزت کریں، انہیں اپنا ملازم نہ سمجھیں۔ان کا احترام اور ادب کریں۔ ہر ایک مسلمان کو اپنی اور مسجد کی پاکیزگی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔
٭ہم سب کی اور خاص کر مسجد کمیٹی کی ذمہ داری ہے امام اور مؤذن صاحبان کی تنخواہ مہنگائی اور بنیادی اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے متعین کی جائے، یہ ائمہ مؤذنین قوم کے مذہبی رہنما ہیں ان کا خاص خیال رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
٭مسجد کو صرف سجدے کی جگہ نہ سمجھیں، نماز سے فارغ ہو کر اپنا وقت نکال کر ذکر میں بیٹھیں، تعلیم میں بیٹھیں اور اپنے محلے کی مسجد میں بیٹھ کر غور و فکر کرنا ہے کہ محلے میں کون بیمار ہے، کون پریشان ہے، کون بھوکا ہے۔ یاد رکھیں ان تمام باتوں کی معلومات ہونا محلے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے تاکہ نادار، لاچار اور مجبور کی دامے درمے سخنے مدد کی جا سکے۔
٭آپسی مشورے سے کسی بھی نماز کے بعد یا حسب ضرورت ہر محلے کی مسجد میں گشت ہو جس میںمحلہ کے لوگوں سے مل کر انہیں دعوت دیں۔ نماز کی پابندی کی اہمیت بیان کریں۔ جو لوگ غلط کاموں اور غیر اخلاقی کاموں میں ملوث ہیں ان کو ان کاموں سے روکنے کی فکر کریں۔جو بیمار ہیں ان کی عیادت کریں۔
٭ہر محلے کی مسجد میں کچھ ہدیہ ایسا بھی دیں جس سے فجر کی نماز کے لیے آنے والے بچوں کو تحائف وغیرہ دئے جائیں تاکہ ان کا ذہن بھی بنے اور مسجد بھی آباد ہوسکے۔ہرمحلے کی مسجد میں مکتب شروع کرنے کی فکر کریں جس میں انگلش ، ہندی، سائنس و میتھس کلاسز اور کیرئیر کونسلنگ کا بھی اہتمام ہو۔
٭محلے کی مسجد میں کمیٹی بنانے کی بھی فکر کرنا ہے جس میں ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء، اساتذہ، سماجی کارکنان اور ہر طبقہ کے باشعور لوگوں کو شامل کرکے اپنے اپنے محلے کے مسائل پر غور کرنا ہے کہ کس شخص کی کیا پریشانیاں ہیں اور انہیں مسجد کمیٹی کے ذریعے کیسے حل کیا جاسکتا ہے۔
٭ہر شخص اسے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ہر جمعہ کی نماز میں چاہے وہ شہر کی کسی بھی مسجد میں ہو ، کچھ نہ کچھ مسجد میں تعاون ضرور کرے چاہے معمولی رقم ہی کیوں نہ ہو،جس سے مسجد کے اخراجات جیسے بجلی ،پانی ،امام و مؤذن صاحبان کی تنخواہ،وضو خانوں کی صفائی، بیت الخلا کی صفائی، پنکھے اور کولر وغیرہ۔ ان تمام کاموں کے لیے ہمیں دیگر ذرائع کی ضرورت نہ پڑے۔
٭اس کے علاوہ مسجد کو کمیونٹی سروس سینٹر (C.S.C) کس طرح بنایا جا سکتا ہے اس پر بھی غور و فکر کرنا ہے۔ جب نماز وغیرہ کا وقت نہیں ہوتا اس وقت ہماری مساجد عام طور پر خالی رہتی ہیں ہمیں کچھ اس طرح کا نظام بنانا ہے جس سے مساجد آباد رہیں ہر عام و خاص کے مسئلہ مسائل ، غریبوں کی امداد، قانونی مشورے اور دیگر جتنے رفاہی کام ہیں وہ سب کے سب ہماری مساجد سے ہونا چاہئے۔
٭ہر طرح کی تنگ نظری سے اوپر اُٹھ کر ہمیں اسلام کے جھنڈے تلے ایک ہو کر ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہئے اور ہر کلمہ گو کو ہمیں اپنا بھائی سمجھنا چاہئے۔
٭ہم سب کو تعلیم و تربیت پرخاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جس سے ہمارے بچے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ہم تمام ہی کو مل کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا شوق رکھنے والے بچے اور بچیوں کی حوصلہ افزائی بھی کرنا چاہئے۔یہی بچے قوم کا مستقبل ہوں گے۔
٭اسی طرح تجارت و روزگار پر خصوصی طور پر دھیان دینے کی ضرورت ہے جس سے قوم میں بھیک مانگنے والوں کی تعداد میں کمی آئے، ہمیں اپنے تاجر بھائی کی معاونت کرنا چاہئے ۔ہر شخص تعلیم کے ساتھ ساتھ روزگار سے بھی جڑے اس کی فکر کرنا ہوگی، تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ہنر سیکھنے اور سکھانے پر زور دینا ہوگا،ہر شخص کو کوئی نہ کوئی ہنر ضرور سیکھنا چاہئے۔
٭ تجویز اور منصوبہ بندی کے ساتھ ہمیں کام کرنا چاہئے۔ ہر چیز میں پہلے ہی سے منصوبہ بندی ہوگی تو کام کرنا آسان ہوگا۔
٭ہم سب کو مل کر ایک دوسرے کا تعاون کرنا چاہئے،چاہے کسی قسم کا بھی تعاون ہو ، محض روپئے پیسوں کا تعاون کرنا ہی مراد نہیں بلکہ جس طریقے سے بھی ہم اپنے بھائی کا تعاون کر سکے کرنا چاہئے مثلا ایک اچھا وکیل کوئی مفید مشورہ ہی دے دے تو یہ بھی ایک طرح کا تعاون و مدد ہی ہے۔ ایک دوسرے کے تعاون سے قوم کا سماجی اور سیاسی شعور بھی بیدار کرنا ہے جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔
٭اس کے علاوہ اسلام میں جتنے بھی اہم خطبے ہیں چاہے نکاح کا خطبہ ہو، جمعہ کا خطبہ ہو اسی طرح فرض نماز کی طرح نماز جنازہ نیز نکاح پڑھانا یہ تمام چیزیں ہر بچے ، بڑے ، جوان ،بوڑھے کو یاد ہواسلئے ہر ایک کو مرنا ہے اور جب انسان خود اپنے والدین کے لئے ایصال ثواب نہ کرپائے اور کسی اور سے یہ کام کرائے تو یہ مناسب نہیں معلوم ہوتا بلکہ ہر کو سیکھنا چاہئے۔ اس کی فکر ہمیں مسجد سے کرنا ہوگی اور اس کے لئے ترتیب بنانا ہوگی۔
آخر میں خصوصی گذارش یہ ہے کہ امام اور مؤذن صاحبان کو ہر طرح سے مضبوط بنانا ہے پھر چاہے معقول تنخواہ (Salary) دیکر ہو یا پھر اُن کے شایان شان کوئی نہ کوئی ہنر سکھانے کے ذریعہ سے ہو بہرحال ہمارے مذہبی رہنما مضبوط ہوں گے تو یقینا قوم میں تبدیلی آئیگی ۔ہر شخص اپنی ذمہ داری سے ان باتوں کو عمل میں لائے، ان شاء اللہ اس کا اجر دنیا و آخرت دونوں میں ملے گا۔ جزاک اللہ خیر!