بھوپال,5اپریل: اللہ کا بے انتہا احسان و کرم ہے کہ اس نے ہمیں ایک دفعہ پھر رمضان المبارک کا مہینہ میسر کیا جو اب تکمیل کے قریب ہے ۔رمضان کی پہلی تاریخ سے آج 25 ویں رمضان تک اللہ کے فضل و کرم سے ہم صحت و عافیت کے ساتھ ہیں اور ماہ مبارک کے تقاضے پورے کررہے ہیں ۔ صحت و عافیت اور سلامتی کے ساتھ ہم نے اپنی زندگی میں ایک اور رمضان المبارک پالیا ۔یہ اللہ ہی کا احسان اور فضل ہے کہ اس نے ایک افضل ترین مہینے میں ہمیں صحت و تندرستی کے ساتھ اس بات کا موقع دیا کہ ہم اس ماہ مقدس میں اللہ کی زیادہ سے زیادہ عبادت کریں ،اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اللہ کا قرب حاصل کریں ۔بالکل کھلا موقع اور دو چار منٹ نہیں پورے 24 گھنٹے اور 30دن ہمیں یہ موقع دیا جارہا ہے کہ ہم خود کو کتنا فرماں بردار بندہ ثابت کرسکتے ہیں ۔ ایسے مبارک ایام اور مقدس راتوں میں جس نے اللہ کا جتنا قرب حاصل کرنا چاہا اسے اتنا ہی قرب ملا اور جس نے اس مہینے کو بقیہ عام مہینوں کی طرح سمجھا اور زندگی اسی گیارہ مہینوں والی روش پر گزاری،اس کے حصے میں کیا آیا ،وہ خود ہی سمجھ سکتا ہے ۔ابھی چند دنوں کی بات ہے ہم نے رمضان کا چاند دیکھا تھا اور آج ہم 25واں رمضان گزار رہے ہیں ،ایسا لگتا ہے کہ ابھی ہفتہ عشرہ قبل ہی رمضان کا چاند دیکھا گیا تھا ۔میرے محترم سامعین وقت اتنی تیزی سے گزررہا ہے کہ مہینہ ہفتہ لگنے لگا ہے ،وقت سے یوں برکت کا نکل جانا علامات قیامت سے ایک علامت ہے ،دن رات ملا کر 24گھنٹے ہی گزرہے ہیں مگر ہمیں اور آپ کو لگتا ہے کہ اتنی جلدی دن ختم ہوگیا اور اتنی جلدی رات تمام ہوگئی ؟ مگر ایسا ہی ہورہا ہے چونکہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ وقت سے برکت اٹھا لی جائے گی ۔آج ہم رمضان کے آخری جمعہ کی نماز ادا کررہے ہیں ۔اس موقع سے ایک مفروضہ یا لوگوں کی خوش فہمی کا ذکر کرتا چلوں کہ رمضان کے آخری جمعہ کو ہم میں سے بہت سے لوگوں نے غیر ضروری اہمیت دیدی ہے ،اس آخری جمعہ کو یوم نجات ، یوم مغفرت تو کچھ لوگ یوم ملال،یوم حزن اور نہ جانیں کیا کیا نام سے پکارتے ہیں ۔اچھی طرح سن لیں رمضان کے پہلے جمعہ کو جو اہمیت و مرتبہ حاصل ہے آخری جمعہ کو وہی اہمیت حاصل ہے، پہلے جمعہ کو آخری جمعہ پر کوئی فضیلت حاصل نہیں نہ ہی آخری جمعہ کو پہلے جمعہ پر کوئی مقام و مرتبہ حاصل ہے ۔اس سلسلے میں احادیث کی کسی کتاب میں کوئی حدیث (معروف یا مجہول) موجود نہیں ،آخری جمعہ کے حوالے سے کوئی قول رسول موجود نہیں ۔یہ ہم آپ نے کہانی گڑھ لی ہے اور جانتے ہیں خود کی گڑھی ہوئی اس کہانی کا کتنا بھیانک انجام سامنے آرہا ہے ۔ایسے بہت سے ایمان والے بھائی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ آخری جمعہ کی نماز پڑھ لینے سے تمام گناہ صغیرہ کبیرہ معاف ہوجاتے ہیں اور اگر روزے نہیں رکھے تو آخری جمعہ میں شرکت سے اس کی تلافی بھی ہوجائے گی ۔ دیکھا آپ نے اس مفروضے کا کتنا بھیانک انجام ہمارے سامنے ہے ،آخری جمعہ کو رمضان کے بقیہ جمعہ پر اہمیت دینا گویا بد دینی پھیلانا ہے ۔اس سے بچئے اور مسلمان ہونے کی ذمہ داری ادا کیجئے ،دینی کتابوں کا مطالعہ کیجئے ،دین کی باتوں کو مستند علماء سے پوچھئے ،آخر ہم کیسے مسلمان ہیں کہ دین کی معمولی باتیں بھی ہم نہیں جانتے اور کوئی ایک کہانی بناتا ہے اور ہم اس پر عمل کرنے لگتے ہیں۔دین اس کا نام نہیں ۔ ہمارا دین 1400سال پہلے ہی مکمل ہوچکا اب اس دین حنیف میں اتنا بھی خلا نہیں کہ وہاں رائی کا ایک دانہ بھی رکھا جاسکے ۔عقل و دانائی کا تقاضا ہے کہ ہم چیز کی جتنی اہمیت ہے اسے اتنی ہی اہمیت دیں۔ ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم اس میں اپنے خیالات داخل کریں ۔آخری جمعہ اپنی فضیلت کے اعتبار سے رمضان کے گزشتہ تین جمعے سے کسی طرح بڑا نہیں ہے ۔ ایسے موقع پر بعض کم علم حضرات خطبہ جمعہ میں یا اپنے بیان میں ’’الوداع ماہ رمضان الوداع‘‘ خوب گنگناتے ہیں ۔ذرا سوچئے تو آپ کون ہیں رمضان کو رخصت کرنے والے ؟ رمضان کے مکمل ہونے پر آپ کو اتنا غم ہے ؟ پورے رمضان میں آپ نے کتنی نمازیں پڑھیں،کتنے روزے رکھے،فقراء و مساکین کی کتنی مدد کی ، پڑوسیوں کا کتنا خیال رکھا،خویش ا قارب کے ساتھ کیا ہمدردی کی ؟اس کا حساب کیا آپ نے؟ اگر نہیں تو پہلے یہ حساب تو کر لیجئے ، دیکھئے رمضان کے 30دنوں کے پرچے میں کتنے سوالات آ پ نے درست حل کئے اور کتنے سوالوں کے جواب آپ نے دیئے ہی نہیں پھر آپ کو سمجھ آئے گا کہ رمضان کی رخصتی پر نہیں اپنی ناکامی اور نااہلی پر آنسو بہانا چاہئے ۔ مسلمانوں نے عجیب روش اختیار کر لی ہے ،نماز پنج گانہ میں تعداد کچھ اور ،جمعہ میں اس سے زیادہ اور رمضان کے آخری جمعہ میں تو شہر کی تمام مساجد اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کررہی ہوتی ہیں ۔ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ ہم نے کبھی سنجیدگی سے سوچا؟ بس یہی جمعۃ الوداع ہے جسے لوگوں نے بقیہ جمعے پر فضیلت دیتے ہوئے ’یوم مغفرت‘یوم نجات‘یوم اجرت‘ اور نہ جانیں کیا کیا بے اصل نام دے کر اس جمعہ کی نماز کو اپنی پوری حیات کیلئے کافی سمجھ لیا ہے جب کہ بقیہ جمعہ اور نماز پنج گانہ کی کوئی اہمیت نہیں۔کیا یہ گمراہی نہیں؟ جس چیز کو اللہ کے رسولﷺ نے خصوصی اہمیت نہیں دی ہم کون ہوتے ہیں اہمیت دینے والے ۔ لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ کسی مفروضے کی طرف نہ جاکر اصل کی طرف آئیں ،اسی میں ان کی فلاح و کامیابی ہے ۔اس ماہ مبارک میں ایک رات شب قدر ہے ،اس حوالے سے میں نے گزشتہ جمعہ میں باتیں کی تھیں ،یہاں محض یاد دہانی کراتا چلوں کہ اس رات کے حوالے سے قرآن پاک میں فرمایا گیا ’’شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ‘‘۔ قرآن مقدس کی اس آیت اور بے شمار احادیث سے معلوم ہوا کہ اللہ نے شب قدر کوہمارے لئے انمول تحفہ ،انمول گھڑی اور سنہرا موقع بنایا ہے ۔اس رات ہم خصوصیت کے ساتھ مسجدوںمیں (خواتین گھروں میں ) عبادت و تلاوت ، ذکرو اذکار اور توبہ استغفار کریں ۔اللہ غفور الرحیم ہے ،ہماری خطائوں کو معاف فرمائے گا ۔وہ تو عطا کیلئے تیار ہے مگر ہم ہیں کہ مانگنا ہی نہیں چاہتے ۔یاد رکھئے اللہ کا در ہی واحد در ہے جہاں سے ہمیں اور آپ کو آج بھی ملتا ہے اور آئندہ بھی وہیں سے ملے گا۔ بس ہمیں مانگنے کا سلیقہ آنا چاہئے ۔ آیئے عہد کریں کہ ہم نے رمضان المبارک میں جس طرح شب و روز گزارے، مسجدوں اور مصلوں پر اپنا وقت لگایا،تلاوت قرآن سے اپنے دلوں کو منور کرتے رہے،غریبوں اور حاجتمندوں کی مدد کی،روزے کی حالت میں اپنی زبان کی حفاظت کی اور اللہ کی تقدیس و تمہید کرتے رہے ، یہی تمام کام رمضان کے بعد بھی کریں گے ۔ اللہ سے دعا کریں کہ اللہ رب العزت رمضان کے ہمارے روزے اور ہماری عبادتیں قبول فرمائے اور ہمارے صدقات و عطیات کو شرف قبولیت بخشے ۔