چنڈی گڑھ 5اپریل: ہریانہ میں بی جے پی امیدواروں کے لیے انتخابی تشہیر کا عمل مشکل ہو گیا ہے۔ کسانوں کی مخالفت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ پولیس کی سیکورٹی میں وہ بمشکل ہی نکل پا رہے ہیں۔ یہ حالت تب ہے جب سبھی پارٹیوں نے اپنے امیدواروں کا نام بھی ظاہر نہیں کیا ہے۔ بی جے پی کی قیادت کو یہ مخالفت دیکھ کر پسینہ آ رہا ہے۔ کسانوں کے سوال انھیں لگاتار پریشان کر رہے ہیں۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ آخر دہلی جانے سے ہمیں کیوں روکا؟ نہ صرف روکا بلکہ ایسا سلوک کیا گیا جیسے وہ دشمن ملک کے باشندہ ہیں۔ آناً فاناً بی جے پی میں شامل ہونے والے اور ہسار لوک سبھا سیٹ سے امیدوار بنائے جانے والے رنجیت سنگھ چوٹالہ ویسے تو برہمنوں پر دیے گئے اپنے بیان کے لیے پہلے ہی معافی مانگتے گھوم رہے ہیں، لیکن جمعرات کو ہسار میں اگروہا بلاک کے گاؤں شیام سکھ میں جب وہ انتخابی تشہیر کرنے پہنچے تو انھیں نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ’پگڑی سنبھال جَٹ کسان سنگھرش سمیتی‘ سے منسلک کسانوں نے نعرے بازی کی جس سے ان کے جلسہ میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ بڑی مشکل سے پولیس اہلکاروں نے احتجاجی مظاہرہ کر رہے کسانوں کو روکا۔ حالات اس طرح ہو گئے کہ رنجیت چوٹالہ کو آدھی تقریر دے کر ہی گاڑی میں بیٹھ کر لوٹنا پڑا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں بھی رنجیت چوٹالہ نے ایک ایسا بیان دے دیا جس پر انھیں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ہنگامہ کے درمیان رنجیت چوٹالہ نے یہ کہہ کر کسانوں کو خاموش کرنے کی کوشش کی کہ ہماری پارٹی کو پورا ملک ووٹ دے رہا ہے۔ آپ کو ٹھیک نہ لگے تو ووٹ نہ دینا۔ کسان ان سے پوچھ رہے تھے کہ کسانوں کو دہلی جانے سے روکنا غلط تھا یا درست تھا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ صرف ہاں یا نہ میں جواب دیں۔ اس پر رنجیت چوٹالہ نے خالصتان معاملہ کو کسانوں کے ساتھ جوڑنا چاہا۔ بات یہیں پر بگڑ گئی اور کسان ناراض ہو گئے۔ ان کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔ کسانوں نے رنجیت چوٹالہ سے پوری ریاست میں کسانوں پر ہوئے لاٹھی چارج کو لے کر بھی سوال پوچھا۔ چوٹالہ نے اس کا ٹال مٹول والا جواب دیا۔
کسانوں نے جب پوچھا کہ فصل بیمہ کو لے کر کسان دھرنے پر بیٹھے تھے ان پر لاٹھی چلائی گئی، تو رنجیت چوٹالا کو کچھ بھی جواب دیتے نہیں بنا۔