نئی دہلی :31مارچ :(پریس ریلیز)مرحوم مختار انصاری کے جنازے میں لاکھوں شریک تھے ، اتنی بڑی تعداد صرف مسلمانوں کی نہیں ، ان میں وہ بھی تھے جن کا اسلام سے رشتہ نہیں ہے ، وہ اس لئے اپنی آنکھوں سے ان کے اوجھل ہو جانے پر بلک رہے تھے کیوں کہ ان کو فکر تھی کہ ان کے درد کا مداوا اب کون کرے گا ، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مرحوم مختار انصاری کسی مافیا کا حصہ نہیں ، بلکہ رضا کارانہ طور پر وہ خدمات انجام دے رہے تھے جو حکومت کا فرض ٹھہرا ، لیکن وہ اس میں کوتاہی کر رہی ہے۔
اگر اقتدار پر قابض اپنی اس قسم کی لاج رکھتے جس پر ان سے دستخط لئے جاتے ہیں تو یہ سؤال ہی نہیں اٹھتا کہ اچھے خاصے صحت مند مرحوم مختار انصاری کی اچانک موت کیسے ہو گئی۔
ان کی موت پر ایک عالم تو دکھی ہے ہی ، لیکن ہمیں بڑا دکھ اس پر ہے کہ ان کے جنازے میں مسلم رہنماؤں میں سے صرف مولانا عامر رشادی ہی کیوں نظر آئے ، کیا یہ صرف ان کا مسئلہ تھا ، گدھے کی سینگ کی طرح وہ کہاں غائب ہو گئے جو سارے عالم میں ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت کا دعویٰ کرتے پھرتے ہیں۔
اچھی طرح سمجھ لیں ، اگر یہی حال رہا تو چند وہ با غیرت کمزوروں کے درد مند جو انفرادی طور پر ان کی مصیبت میں نظر آتے ہیں یکے بعد دیگرے سب ہمارے درمیان سے اٹھ جائیں گے ، اور ہم اکیلے بے سہارا رہ جائیں گے ، یہی ملت اسلامیہ ہندیہ کے بد خواہوں کی ان کے دلوں میں خوابیدہ پرانی خواہش ہے۔