بھوپال،29مارچ:آج قاضی شہر مولانا سید مشتاق علی ندوی نے اپنے معمول کے خطاب میں حاضرین موتی مسجد سے فرمایا کہ اللہ کا بے انتہا کرم ہے کہ اس نے ہمیں ایمان کی دولت بخشی اور صاحب ایمان گھرانے میں پیدا کیا ۔طرح طرح کی نعمتیں بخشیں اور عبادات و طاعات کے ذریعے اپنی نعمتوں میں اضافہ کرنے کا وعدہ کیا ۔اب ہم میں سے ہر صاحب ایمان کیلئے ضروری ہے کہ وہ غور کرے کہ اللہ کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنے کے قرآن پاک اور فرمان رسول میں جو طریقے بتائے گئے ہیں ،ان پر عمل کرے اور اپنے معبود حقیقی کا فرماں بردار بندہ بن جائے ۔سامعین کرام اللہ کی بیشمار نعمتوں میں سے ایک عظیم ترین نعمت ہمارے لئے ماہ مقدس رمضان المبارک بھی ہے جس کے حوالے سے قرآن پاک میں فرمایا گیا کہ رمضان کے روزے تم پر فرض کئے جیساکہ تم سے قبل سابقہ امتوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی اور پرہیز گار بن جائو ۔معلوم ہوا کہ جو ماہ مبارک ہم پر سایہ فگن ہے،ہمارے لئے اللہ عز وجل کی طرف سے بہت بڑی رحمت ہے ۔ تنگی وقت کے سبب اس ماہ کے فضائل پر گفتگو ابھی ممکن نہیں تاہم چند اہم اور ضروری باتیں گوش گزار کرنا لازمی ہیں ۔رسالت مآب حضور اقدس ﷺ رمضان المبارک کی تیاریاں رجب المرجب سے ہی شروع کردیتے تھے ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک صاحب ایمان کیلئے رمضان کا استقبال اور اس کے تقاضے کی پیروی کتنی ضروری ہے ۔قرآن پاک کے فرمان سے یہ بات اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ رمضان ہمارے لئے بہت بڑا پیغام لے کر آتاہے ۔اس ماہ ہم روزے کی فرضیت کوادا کرکے اور نماز تراویح کے ساتھ تلاوت قرآن ،ذکر و اذکار اور دعاو تسبیحات کے ذریعے اللہ کی بارگاہ میں مقبولیت حاصل کرسکتے ہیں ۔چونکہ یہ مہینہ ہی ایسا ہے جو کھلا پیغام دیتا ہے کہ وہ اہل ایمان کو متقی اور پرہیز گار بناتا ہے ۔لہذا ہمیں چاہئے کہ رمضان المبارک کے لیل و نہار کے ایک ایک لمحے سے فائدہ اٹھائیں ،معلوم نہیں ہم میں کون ہے جسے آئندہ رمضان نصیب نہ ہو ،اور یہ حقیقت تو ہمارے اور آپ کے سامنے ہے ۔گذشتہ سال ماہ مبارک میں ایسے بہت سے ہمارے بھائی تھے جو آج ابدی نیند سو رہے ہیں اور اب وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں ،لہذا زندگی کے ایک ایک لمحے کو غنیمت جانئے اور جس قدر بھی ممکن ہو خود کو اللہ کا محبوب بندہ بنانے کی کوشش کیجئے ۔آج رمضان المبارک کی18تاریخ ہے اور دو دن کے بعد آخری عشرہ ہے جس میں روزے ،نماز ،تراویح اور دیگر اعمال صالحہ کے ساتھ دس دنوں کا اعتکاف بھی ہے ۔ اعتکاف سنت علی الکفایہ ہے۔عشرہ ٔ اخیرہ کے حوالے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓفرماتی ہیں کہ جیسے ہی رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا حضور پاک ﷺ کمر کس لیتے،اپنے گھر والوں کو متوجہ (بیدار) کرتے اور رب العزت کی عبادت معمول سے زیادہ کرنے لگتے اور یہ سلسلہ رمضان کے آخری یوم تک رہتا ۔ مشکوٰۃ میں موجود حضرت عائشہ ؓ کی اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ ﷺ رمضان کی 21 ویںشب سے حالت اعتکاف میں رہ کر اللہ کی خوب عبادت کرتے حالانکہ آپ معصوم عن الخطا ہیں اس کے باوجود عبادت و طاعت کا یہ حال تھا ،اپنے گھر والوں کو بھی اللہ کی عبادت اور قیام الیل کی طرف رغبت دلاتے ۔اب ہم میں ہر آدمی غور کرے کہ آخرت کی تیاری کیلئے ہمیں کیا جتن کرنے ہیں اور اللہ تباک و تعالیٰ کے مخصوص مہینوں،دنوں اور اوقات سے کتنا فائدہ اٹھانا ہے ۔قاضی صاحب نے ایک لطیف مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر اس بات کا اعلان کردیا جائے کہ رات عشاء کے بعد سے صبح 5بجے تک ڈیوٹی کرنی ہے جس کا معاوضہ 25000/روپئے ادا کیا جائے گا تو بتائیں کون ہے جو ایسی ڈیوٹی نہیں کرے گا ،شہر کا ایک ایک بندہ حاضر ہوجائے گا کہ یہ موقع اسے دیا جائے ۔معزز حاضرین دین کا معاملہ اس سے بھی اہم اور دینی تقاضوں کو وقت سے پورا کرنا بہت ضروری ہے ،اس کا انعام دنیا کے انعام سے ناقابل تصور حد تک بڑا ہے ۔عقل مند وہی ہے جو زیادہ فائدے والا کام کرے ،صاحب ایمان اس طرف توجہ دیں۔قاضی صاحب نے فرمایا کہ شہر کے مسلمانوں کا مزاج عجیب ہوگیا ہے ،آخری عشرہ کو وہ پکنک ،شاپنگ اور سیرو تفریح کی نذر کردیتے ہیں ،بازاروں میں مردوں سے زیادہ خواتین نظر آتی ہیں،وہ اپنے اور اپنے بچوں کے کپڑوں کے ساتھ اپنے شوہروں کے کپڑے بھی اپنی مرضی اور فیصلے سے خریدتی ہیں حتیٰ کہ ایک ٹوپی بھی خریدنی ہو تو خاتون ہی بازار جاتی ہیں ۔ اس روش پر قابو پانے کی ضرورت ہے ۔قاضی شہر نے فرمایا کہ اعتکاف میں اگرچہ پورے محلے والوں کی طرف سے ایک شخص کا مسجد میں بیٹھنا سنت علی الکفایہ ہے تاہم ہماری نوجوان نسل کو بھی چاہئے کہ اعتکاف میں بیٹھیں کیوں کہ جوانی کی عبادت اللہ کی بارگاہ میںبہت مقبول ہے ۔حضرت پیر سعید فرمایا کرتے تھے کہ بوڑھوں کی عبادت سے نوجوانوں کی عبادت زیادہ وزنی ہے کیوں ایک بوڑھا جو دنیاوی مشاغل سے فارغ ہوچکا ہوتا ہے اب تو اسے مسجد میں ہی سکون ملے گا جب کہ ایک نوجوان دنیاوی مشاغل میں منہمک ہوتا ہے ،اس کے بہت سے ارمان،بڑی خواہشیں اور امنگیں ہوتی ہیں،وہ نوجوان ان خواہشات کو چھوڑ کر اللہ کے گھر میں حاضر ہوتا ہے تو یقیناً اس کی حاضری زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔قاضی صاحب نے اس کی مزید صراحت کرتے ہوئے فرمایا کہ قربانی کیلئے تندرست و توانا جانور لاغر و کمزور جانور سے زیادہ بہتر ہوتا ہے۔یہی مثال بوڑھوں اور نوجوانوں کی ہے ۔نوجوان کی عبادت ضعیفوں کی عبادت سے زیادہ مضبوط اور مقبول ہوتی ہے ۔اس لئے ہم اپنی نوجوان نسل اس جانب متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی جوانی کے ایام اللہ اور رسول کی فرماں برداری میں گزارکر جوانی کا فائدہ اٹھائیں کیوں کہ یہ جوانی ہمیشہ باقی رہنے والی نہیں ہے۔ ایک اور امر کی طرف اشارہ کروں کہ یہ افطار پارٹیاں ،اللہ کی پناہ ! ہمیں کہاں لے جارہی ہیں ؟ اس قدر بھاگم بھاگ ،دعوت افطار میں شریک لوگوں میں بہت ایسے ہوتے ہیں جن کی نماز مغرب تکبیر اولیٰ تو بہت دور کی بات ایک دو اور کسی کی تینوں رکعتیں چھوٹ جاتی ہیں جب کہ دعوت افطار کے میزبان ،ان کے کیا کہنے بندوں کی خاطر تواضع میں رب کے حقوق چھوڑ بیٹھتے ہیں۔یہ کیسی نیکی ہے ،تاجر گھاٹے کا سودا نہیں کرتا ہے ۔آپ نے نیکیوں کے حصول کیلئے روزہ داروں کو افطار کرایا مگر مصروفیت کے اس عالم میں اللہ کا حق بھلا بیٹھے ،بتائیں افطار کا یہ سودا سود مند رہا ؟ روزے داروں کو افطار ضرور کرائیں مگر ایسے لمبے دستر خوان بچھانے سے پر ہیز کریں جو دستر خوان آپ اور آپ کے رب کے درمیاں حائل ہوجائے ۔
اللہ ہمیں دین کی باتوں کو اس کے درست مفہوم کے ساتھ سمجھنے کی توفیق بخشے ۔