بھوپال، 28 مارچ (ہ س)۔ لوک سبھا انتخابات سے پہلے سیاسی جماعتوں کے الزامات اور جوابی الزامات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں مدھیہ پردیش کانگریس کے صدر جیتو پٹواری نے ریاستی محکمہ تعلیم کے رہنما خطوط پر سوال اٹھاتے ہوئے انہیں محض رسمی قرار دیا ہے۔ مدھیہ پردیش کے سرکاری اور نجی اسکولوں کا تعلیمی سیشن یکم اپریل سے شروع ہوگا۔ محکمہ اسکول ایجوکیشن نے سرکاری اسکولوں کے لیے نئے تعلیمی سیشن 25-2024 میں اندراج اور دوبارہ مشق کے لیے رہنما خطوط جاری کیے ہیں۔ پہلے ایک ماہ تک طلباء کو بنیادی تعلیم کے لیے مشق کرائی جائے گی۔
اس کے بعد جون میں جب اسکول کھلیں گے تو نئی کلاس کی پڑھائی شروع ہو جائے گی۔ سیشن کے آغاز میں طلباء کو 30 اپریل تک سائنس، ریاضی اور زبان کے مضامین کے مشکل تصورات کی مشق کرائی جائے گی۔
پٹواری نے بتایا کہ یکم اپریل کو بچوں کی میٹنگ اور خصوصی بھوج (ضیافت) کا اہتمام کیا جائے گا۔ طلباء کا تلک لگا کر استقبال کیا جائے گا۔ ہر ماہ کے لیے تعلیمی سرگرمیوں کا کیلنڈر جاری کیا گیا ہے۔ یہ ایسے سرکاری احکامات ہیں، جو ہر سال ایک رسم کے طور پر جاری کیے جاتے ہیں۔ اس بارے میں نہ محکمہ سنجیدہ ہے اور نہ ہی حکومت۔ وجہ بھی بہت واضح ہے۔ ان میں سے کسی کو بھی اس کے فوائد یا نقصانات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اعداد و شمار گناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب کچھ نئے اعداد و شمار کے ساتھ ہم اصل معاملے کی طرف آتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق جو پچھلے سال یعنی نومبر 2023 میں پبلک ڈومین میں سامنے آئی تھی یا یوں کہئے کہ مدھیہ پردیش اسٹیٹ ایجوکیشن پورٹل 2.0 کے مطابق ریاست کے 2621 اسکولوں میں اساتذہ نہیں ہیں۔ 47 اضلاع کے 7793 اسکولوں میں صرف ایک استاد ہے۔ وِندھیہ خطے میں 1747 اسکولوں میں ایک استاد ہے اور 554 اسکولوں میں کوئی استاد نہیں ہے۔ چمبل زون میں 1246 اسکولوں میں ایک استاد ہے اور 558 اسکولوں میں کوئی استاد نہیں ہے۔ پٹواری نے بتایا کہ مہا کوشل علاقے میں 710 اسکولوں میں ایک استاد ہے اور 140 اسکولوں میں ایک بھی استاد نہیں ہے۔ وسطی ہندوستان میں 1147 اسکولوں میں ایک استاد ہے اور 363 اسکولوں میں ایک بھی استاد نہیں ہے۔ مالوا نیماڑ خطے میں 1512 اسکولوں میں ایک استاد ہے اور 471 اسکولوں میں ایک بھی استاد نہیں ہے۔ بندیل کھنڈ کے علاقے میں 1431 اسکولوں میں ایک استاد ہے اور 537 اسکولوں میں ایک بھی استاد نہیں ہے۔
ریاست کی بی جے پی حکومت سے سوال پوچھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کیا وہ عوام کو بتانے کی زحمت کرے گی کہ اب حالات میں کتنی بہتری آئی ہے؟ اگر کچھ اساتذہ بھرتی بھی ہوئے ہیں تو اس تناسب سے کتنے بچے بڑھے ہیں؟ اساتذہ اور طلباء کی حاضری کا موجودہ تناسب کیا ہے؟ پٹواری نے کہا کہ سچ یہ ہے کہ ڈاکٹر موہن یادو حکومت تعلیم کے معاملے میں بالکل بھی سنجیدہ نہیں ہے۔
یہ سب سے بڑی وجہ ہے کہ اسکول چھوڑنے والے طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ غلط اعدادوشمار کے ذریعے سچائی چھپانے والی حکومت تعلیم کے حوالے سے اپنے تحفظات واضح کرے تو بہتر ہوگا۔