علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان کی ولادت ۱۷؍اکتوبر ۱۸۱۷ء کو دہلی میں ہوئی اور انتقال ۲۷؍مارچ ۱۸۹۸ء کو علی گڑھ میں ہوا۔ سر سید کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے لیکن جس طریقے سے ان کے یوم پیدائش کو سر سید ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے اور تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے، ۱۷؍اکتوبر کو لوگ اُنہیں یاد کرتے ہیں اسی طرح ان کے یوم وفات یعنی ۲۷؍مارچ کو بھی اس عظیم شخصیت کو فراموش نہیں کیا جانا چاہئے۔۲۷؍مارچ یعنی آج ہی کے دن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی اور عظیم مفکرو مدبر سر سید احمد خان اس دنیا سے رُخصت ہو گئے ۔آپ کی تعلیمات ، آپ کے نظریات آج بھی موجود ہیں ۔
قابل ذکر بات ہے کہ اکیسویں صدی کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی صدی کہا جاتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اس صدی میں سائنسی ایجادات سے جہاں عقل حیران ہے وہیں نئے نئے انکشافات اور قدرت کے راز کو افشاں کرنے کے لئے ہر ملک اپنی اپنی بساط بھر کوشش کر رہا ہے۔ چندریان.۳ کی کامیابی کے بعد جہاں دنیا میں بھارتیہ سائنس دانوں کے قد میں اضافہ ہوا ہے وہیں ہمیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارتیوں میں سائنسی مزاج پیدا کرنے کا سب سے پہلا خواب سن 1864میں سر سید احمد خان نے ہی دیکھا تھا۔لیکن سوال اُٹھتا ہے کہ اس میں بھارت کے اقلیت کہاں ہیں؟ ان کا کوئی شمار ہی نہیں ہے۔اقلیت آج بھی حاشیہ پر ہی ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغین یعنی علیگس کو سر سید کے یوم پیدائش کی طرح یوم وفات کے موقع پر بھی ان کے مشن کے لئے لوگوں کو بیدار کرنے کا کام کرنا چاہئے۔سر سید کی تعلیمی تحریک کو آگے بڑھانے میں علیگس کا کردار نہایت ہی اہم ہے۔آج ہماری تمام قدیم نشانیوں کو مٹایا جا رہا ہے جس میں سرکار بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ اُردو زبان کی اشاعت و فروغ کے لئے بنے اداروں کو مالی مدد نہ ملنے کی وجہ سے وہ بند ہونے کی کگار پر ہیں یا بند ہو چکے ہیں۔ اُردو اساتذہ کی تقرریاں نہیں ہو رہی ہیں۔ایسے حالات میں علیگس کو آج کے دن بھی سر سید کو یاد کرتے ہوئے اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا چاہئے۔
سر سید احمد خان کی زندگی کا خلاصہ تھا تعلیم و تعلم، آج ان کے یوم وفات پر ہم سب کو عہد کرنا چاہئے کہ سر سید کے مشن کو کس طرح آگے بڑھایا جائے۔تعلیم ، تجارت، روزگار/ہنر، تجویز و تعاون کی بات ہونا چاہئے۔ اگر حکومت کی بات کی جائے تو یقینا نتیجہ صفر ہی برآرہا ہے ۔ہر جگہ کچھ ایسے منووادی اور پونجی وادی عناصر ہے جن کی وجہ سے اقلیتوں کی حالت بد سے بدتر ہو تی جار ہی ہے۔ چاہے یوپی ہو ، ایم پی ہو ، آسام ہو یا کوئی بھی صوبہ ہو ہر جگہ اقلیتی اداروں پر زیادتی کی جارہی ہے۔یوپی میں مدرسہ بورڈ کو بند کیا جا رہا ہے۔ نیز اقلیتوں کو ستانے کے لئے نت نئے قوانین جیسے سی اے اے ، این پی آر، یو اے پی اے وغیرہ نافذ کئے جارہے ہیں،الغرض یہ ہے کہ جب تک تعلیم عام نہیں ہوگی عام آدمی اسی طرح شر پسند عناصر کے ہاتھوں دبا کچلا رہے گا ۔اسلئے ضروری ہے کہ سر سید کے یوم وفات پر ان کو یاد کرتے ہوئے اپنے دفاع کی فکر ہم سب کو کرنا چاہئے اور اس کے لئے لائحہ عمل بھی تیار کرنا چاہئے۔
اسی لئے سر سید کے مشن کی اہمیت آج کے حالات میں مزید بڑھ جاتی ہے۔ کیوں نہ ہر صوبے میں ایک یونیورسٹی علی گڑھ کی طرح بنائی جائے ۔تعلیم عام ہو ،سب پڑھے سب بڑھے، جس سے ملک و ملت کا نفع ہو۔ملک کی غربت دور کرنے کا واحد راستہ ہی تعلیم ہے جسے آج ہم سب کو عام کرنے کی ضرورت ہے یہی سر سید کا مشن تھا اور حقیقی معنوں میں انہیں خراج عقیدت بھی تبھی ہوگی۔رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں جب کہ مساجد آباد ہیں ان مساجد کو تعلیم و تعلم کے لئے بھی استعمال کیا جائے تو ایک بڑے طبقے کو بڑا نفع ہوگا۔ ہم سر سید کے یوم وفات پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔