بھویش دلشاد:شاعری چند الفاظ کے زریعے اسردار طریقے سے کسی بات کو کہنے کا فن ہوتا ہے، جو پڑھنے اور سننے والوں کے دل و دماغ میں ہلچل پیدا کر دیتا ہے۔ آم طور پر ایک شاعر اپنے دل کے غم، خوشی، حالات ،عشق جیسے مسائل پر شعر کہتا ہے لیکن شاعر اگر اخبار نویس بھی ہو تو معاشرے کی طرف اسکی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ اس کی شاعری میں بغاوت کے سر شامل ہو جاتے ہیں۔ شاعری میں بھوک ناانصافی غریبی جھوٹ فریب سیاست جیسے مدعے شامل ہو جاتے ہیں۔ میری نظر میں بھویش دلشاد ایک ایسا ہی نام ہے جس نے پوری ذمہ داری سے اپنے شاعر اور اخبار نویس ہونے کا حق ادا کیا ہے، شاعری کے پریتی بھی اور معاشرے کے پرتی بھی۔ شور شرابے اور مشاعروں سے دور رہ کر دلشاد صاحب نے جو سادھنہ کی ہے اس کا پھل ان کی شاعری میں نظر اتا ہے۔آج شعر و ادب کی دنیا میں دخل رکھنے والوں کے بیچ دلشاد صاحب کی شاعری کے بہت چرچے ہیں۔ لوگ ان کی طرف بہت امیدوں سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ ان کی شاعری میں نہ صرف سماجی ماحولیاتی ندیوں کی فکر ہے بلکہ ان کی شاعری موجودہ دور کی تحریفات کو ائینہ دکھاتی ہے ۔ اج جب حکمران جماعت کی مخالفت میں بولنے یا لکھنے والوں کو دیش دروہی مان لیا جاتا ہے اس دور میں دلشاد صاحب جس طرح کی شاعری کر رہے ہیں اس کے لیے ہمت چاہیے۔ بطور بہادر خبر نویس ہی نہیں بطور شاعر بھی سسٹم سے لڑنا آسان نہیں ہے۔ بھویش دلشاد صاحب کی شاعری کے تین مجموعوں میں سے ایک ’’نیل‘‘ کے تاثرات میں برج شرواستو جی لکھتے ہیں سب سے زیادہ امید جگاتی ہے ان کی پرگتی شیل وچار دھارا۔ صرف یہی وچار زمانہ بدل سکے گا، دنیا کو ایک دن اس ائیڈیولوجی تک جانا ہی پڑےگا۔
وہیں ڈاکٹر اعظم صاحب نے بھی اپنے تاثرات میں اس بات کو قبول کیا ہے کہ سسٹم پر چوٹ کرنا دلشاد صاحب کا پسندیدہ عمل ہے۔میں نے بھی کچھ اشعار کی نشان دہی کی ہے جو ان کے تیور کو بتاتے ہیں۔ جیسے یہ شعر دیکھیے:
بولو کہ لوگ خوش ہیں یہاں سب مزے میں ہیں۔یہ مت کہو کہ زل الہی نشے میں ہیں۔ دور حاضر میں یہ شعر کیا کہنا چاہتا ہے یہ اسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔
کچھ اور شعر دیکھیے:
تمام کوچے یہاں قتل گاہ تو ہیں ہی
نہیں ہے خونی جو وہ سب گواہ تو ہیں ہی
جو بھی زندہ وہ ہتھیار بند ہیں یا چپ
بھلے بحال دکھیں ہم تباہ تو ہیں ہی
دور حاضر میں دیش کی سیاست میں جو ہو رہا ہے اسے مظلوم تو صحن کر ہی رہے باقی لوگ بھی ظلم پر کسی کاروائی کے ڈر سے خاموش رہتے ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کی اواز نہ چھین لی جائے۔کہیں ان کے قلم نہ توڑ دیے جائیں۔لیکن دلشاد صاحب کا قلم بہادری سے چلتا ہے۔ انہوں نے اپنے تیور کا تعارف اس شعر میں کھل کر دیا ہے :
میں دل سے دلشاد تو ہوں
باغی ہے سر ذات نظر
اب ترقی پسندی سے باہر نکل کر ان کی شاعری کو دیکھیں تو ایک نیا پن دکھتا ہے۔ ان کی شاعری میں روایتی انداز میں بھی نئے تغزل دیکھنے کو ملتے ہیں۔ شاعری میں نئ نئ انوکھی ردیف، انوکھے استعارے نظر اتے ہیں،۔کچھ انوکھی ردیف والی غزلوں نے دھیان کھینچا ہے جن میں سے سینو ریٹا زندہ باد قید ہو ٹون میں فلمی۔ ایسی ردیفیں آسانی سے نہیں نبھای جا سکتیں ھیں لیکن انہوں نے بخوبی نبھایا ہے۔ایک ہی ردیف پر کئی کئی غزلیں الگ الگ انداز میں پڑھنے کو ملیں جو شاعر کے وسیع خیال کی گواہی دیتی ہیں۔ غزلوں میں بھرتی کے شعر نہیں دکھتے اور نہ ہی کہیں ہلکا پن محسوس ہوتا ہے۔
پرشانت ترپاٹھی جی نے ‘سیاہ کی تفسیر میں لکھا ہے ’’کوششیں انہی کو زیادہ فائدہ پہنچائیں گے جو لوگوں کو اپنی شاعری مہیا کروا پائے گا بھلے ہی شاعری کو ہلکا کرنا پڑے اور ہلکی شاعری دلشاد صاحب کے بس کے باہر کی بات ہے‘‘۔
اج کے کئی نام چین شاعر مقبولیت حاصل کرنے کے لیے یا فلموں میں موقع پانے کے لیے نہ صرف اپنی شاعری کے لیبل کو گرا دیتے ہیں بلکہ بحر سے بھی سمجھوتا کر لیتے ہیں۔میرا بھی یہی خیال ہے کہ بھویش دلشاد صاحب کی شاعری میں کہیں بھی ہلکا پن نہیں ملتا ہے۔ انہوں نے کسی بھی شیر کو کہنے کے لئے کسی بھی لحاظ سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہوں نے شاید ہی کوئی غزل دوسروں کی زمین پر کہی ہو۔کالی داس نے لکھا ہے جس خوبصورتی میں ہر لمحہ نیا پن ہو وہی دلکش ہوتا ہے۔ تو بہترین تخلیق کے لیے کہن میں نیا پن اور تازگی چاہیے جو بھویش صاحب کی غزلوں میں ہے۔
انہوں نے سادہ لفظوں میں سماجی مفاد کی باتوں کو اپنی غزلوں میں شامل کیا ہے۔ عام بات بھی بہت عام طریقے سے کہی جائے تو وہ عام نہ ہو کر بہت خاص بن جاتی ہے اور یہی سمپلی سٹی ہی شعر کی خاصیت بن جاتی یہی بات ‘کہ پی انمول جی نے ان کتابوں کے لیے کہی ہے ۔وہ لکھتے ہیں ”بھویش سیدھی سادی زبان میں اپنے ہی انداز سے دور حاضر کی تمام باتوں کو اکیرتے ہیں۔اس ان پڑھ کبیر کے لہجے میں جب دلشاد کچھ کہتے ہیں تو ستم ڈھاتے ہیں۔
وہیں انیتا منڈا بھی لکھتی ہیں ”بھٹکے ہوئے وقت کے تصویر بناتے ہوئے ان کا قلم کبھی کبھی کبیر کی روح کا لمس پا لیتا ہے”۔ ان حوالوں کو یہاں پیش کر کے میں بھی یہی کہنا چاہتی ہوں کہ بھویش صاحب کا کبیرانا مزاج ان کی شاعری کو الگ لیول تک لے جاتا ہے ان کا ایک شعر یہاں پیش کرنا چاہتی ہوں۔
” رہے رہیں گے وہ غالب وہ میر زندہ باد
مگر میرے لیے ہیں پہلے کبیر زندہ باد”
کل ملا کر بھویش اور کبیر کا رشتہ کافی قریبی معلوم پڑتا ہے یا یوں کہیں کہ کبیر کی فقیری کا دامن بھویش نے تھام لیا ہے۔ اس شعر کا ذکر اس خیال کو پختگی دیتا ہے۔”دھنلی انکھوں میں خواب بھر بھر کر کالے دریا کو پار کر رہے ہیں۔ہم ہیں مصروف ابھی چھیڑیے نہ ہمیں ابھی بچوں سے پیار کر رہے ہیں”
غزلوں کی سیریز کو پڑھتے ہوئے بہت سی اچھی اچھی غزلیں اور نہایت عمدہ اشعار سے گزر ہوا جن میں سرخ نیل اور سیاہ رنگ کے علاوہ بھی تمام رنگ جلوہ افروز رہے جیسے کہ یہ کوئی مجموعہ نہ ہو کر ایک دھنک سے نکلے ہوئے رنگ ہیں جنہیں شائقین تک پہنچنا ہی چاہیے۔دلشاد صاحب کی شاعری کا تذکرہ ہوا اور ان اشعار کا ذکر نہ ہو تو بات ادھوری رہ جائے گی۔اب تو ہم چھین کے لیں گے جو ہمارے حق ہیں۔
بھیک میں پھینکے ہوۓ اپ اٹھا لو اپنے
آگ لگا دو کاشی کو تیجاب چھڑک دو کعبے پر
حل ڈھونڈوکچھ روک لگے اس بیزہ خون خرابے پراب کچھ باتیں ان کے انداز سخن پر بھی ہو جائیں ۔ ڈاکٹر عظمی اپنے تبصرہ میں لکھتے ہیں ”ان کی غزل محض غزلیں ہیں ہندی یا اردو غزلوں کی درجہ بندی میں نہیں مانتا ورنہ یہ کہنا ہوگا کہ اردو غزلیں ہیں دیوناگری لپی ہے”۔ہندی اردو غزلوں کے تنازعہ سے دور بھویش فکر پر دھیان دیتے ہیں انداز سخن پر دھیان دیتے ہیں اصلیت کی بات کرتے ہیں یہ شعر ان کے خیال کو اجاگر کرنے کے لیے کافی ہے۔
سائے میں ہو تم میر کے غالب یا فیض کے
اپنی کہو او شاعروں کس کے سخن میں قید ہو
غزلوں کی یہ سیریز محض کتابیں نہیں ہیں بلکہ ایک ارٹ گیلری ہے جس میں ہم دلشاد صاحب کے خیالوں کی عکاسی کو نہ صرف محسوس کر سکتے ہیں بلکہ من کی انکھوں سے دیکھ پاتے ہیں۔بھوویش صاحب کو ان مجموعوں کے لیے دلی مبارکباد۔ امید ہے اگے بھی اسی بہادری سے سعر کہتے رہیں گے قلم کی دھار کو کند نہیں ہونے دیں گے۔
غزالہ تبسم