نئی دہلی12مارچ : ہندوستانی مسلمانوں کے واحد وفاقی ادارہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے مودی حکومت کے ذریعہ متنازعہ شہریت (ترمیمی) قانون یعنی سی اے اے ملک میں نفاذ کرنے کے فیصلہ پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ خصوصاً سی اے اے نافذ کرنے سے متعلق نوٹیفکیشن عام انتخابات کے اعلان سے عین قبل جاری کیے جانے پر ادارہ نے اپنی گہری تشویش ظاہر کی ہے۔ مسلم مجلس مشاورت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ تفرقہ انگیز نوعیت کا ہے جو سیاسی فائدے کے لیے لیا گیا ہے اور اس کا مقصد مختلف محاذوں پر حکومت کی ناکامی سے توجہ ہٹانا ہے۔ مودی حکومت نے متنازعہ قانون کے قوانین کو نوٹیفائی کرنے کا فیصلہ اس حقیقت کے باوجود لیا ہے کہ اسے ملک بھر کی سول سوسائٹی کے مختلف گروپوں کی جانب سے ملک کی عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا گیا ہے اور اس کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے۔ مشاورت کی پختہ رائے ہے کہ حکومت کے اس فیصلے نے نہ صرف لوگوں کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنے کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی فرقہ وارانہ سیاست کو ایک بار پھر بے نقاب کر دیا ہے، بلکہ اس خطرناک فیصلہ سے شمال مشرقی ریاستوں میں بنگلہ دیش سے بڑے پیمانے پر غیر قانونی تارکین وطن کا سیلاب امڈ آئے گا اور شمال مشرقی ریاستوں کی مقامی آبادی کے تناسب کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ مزید برآں، پڑوسی ممالک سے مہاجرین کی بڑے پیمانے پر آمد معیشت پر بوجھ ہوگی اور ملک کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع کو مزید کم کر دے گی۔
جو پہلے ہی بے روزگاری کے سبب پرخطر ملازمتوں کا انتخاب کرنے اور اسرائیل و روس کے جنگی علاقوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ مسلم مجلس مشاورت کے موجودہ صدر نوید حامد نے سال 2019 میں اس متنازعہ سی اے اے قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، لیکن بدقسمتی سے عزت مآب عدالت میں اب تک اس تعلق سے صرف دو سماعتیں ہی ہوئی ہیں۔ اب اس نئی پیش رفت کے بعد مشاورت سی اے اے (2019) کے متنازعہ قانون کو نافذ کرنے کے متنازعہ فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے اپنے ماہر قانونی مشیروں سے رابطے میں ہے۔