بھوپال، 11مارچ۔ جمعیۃ علماء ہندکی اوقاف کے تعلق سے بنائی گئی اوقاف کمیٹی جس کی ایک میٹنگ بھوپال میں جمعیۃ علماء مدھیہ پردیش کے زیرِ اہتمام صدر جمعیۃ علماء مدھیہ پردیش اور کنوینر مرکزی وقف کمیٹی حاجی محمد ہارون کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ جس میں شرکت کے لیے جمعیۃ علماء ہندکے اوقاف کے لیگل ایڈوائزراویس سلطان خان دہلی سے تشریف لائے۔ میٹنگ کا آغاز حافظ اسماعیل بیگ کی تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا۔ میٹنگ کو خطاب کرتے ہوئے مدھیہ پردیش جمعیۃ کے صدر حاجی محمد ہارون نے میٹنگ کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ جمعیۃ علماء ہندکے صدر حضرت مولانا سیّد محمود اسعد مدنی صاحب اوقاف کی جائیدادوں کے سلسلہ میں بہت زیادہ فکرمند ہیں، اِسی کو لے کر جمعیۃ علماء ہندنے ایک مرکزی اوقاف کمیٹی تشکیل دی ہے جوکہ وقفیہ جائیداد سے متعلق دیگر اُمور کے ساتھ وقفیہ جائیداد کے خردبرد ہونے اور تمام دشواریوں کا جائزہ لینے اور آئندہ کے لیے لائحہ عمل بنانے کے لئے کام کررہی ہے۔ جس کی کئی میٹنگیں ملک کے الگ الگ شہروں میں منعقد کی جاچکی ہیں اور اِسی کڑی میں آج ایک میٹنگ بھوپال میں رکھی ہے۔انھوں نے آگے کہا کہ اوقاف کی جائیدادوں کیا حفاظت کے لیے سبھی تنظیموں کے لوگوں کو عملاً آگے آنا چاہئے، وقف بورڈ کو لے کر اُنھوں نے کہا کہ وقف بورڈ بننے سے لوگوں نے یہ سمجھا کہ وقف بورڈ ہماری جائیدادوں کی حفاظت کرلے گا اور عوام بے فکر ہوگئی لیکن اوقاف کی جائیدادوں کو سب سے زیادہ نقصان وقف بورڈ کی بے توجہی اور لاپرواہی کی وجہ سے ہوا ہے لیکن اب ہمیں اِس پر مستقل توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اِس موقع پر اویس سلطان خان صاحب نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہنداوقاف کی جائیدادوں کی حفاظت کے لیے ہرممکن کوشش کرہی ہے، جس کے لیے مرکزی اوقاف کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، اِس کمیٹی میں کئی صوبوں کے صدر حضرات شامل ہیں اوراِسی سلسلہ میں اوقاف سے متعلق پریشانیوں کو لے کر ہر صوبہ میں باقاعدہ ایک ناظم مقرر کیا جائے گا۔
میٹنگ میں شامل سابق ڈی جی پی ایم پی وچھتیس گڑھ ایم ڈبلو انصاری نے کہا کہ میٹنگ میں لیے گئے سبھی فیصلوں کی تائید کرتے ہیں، اِسی کے ساتھ اُنھوں نے کہا کہ 1995ء کے وقف ایکٹ کو مزید بہتر بنائے جانے اور اُس کی کمیوں کو دور کئے جانے کی کوشش کرنا چاہئے۔ سینئر صحافی عارف عزیز نے کہا کہ ہمیں یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر چلنے والے اوقاف کے تعلق سے غلط پروپگنڈہ کا بھی جواب دینا چاہئے تاکہ وقف جائیداد کو لے کر پھیل رہی غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکے اور وقف جائیدادیں اللہ کی امانت ہیں، غرباء کا حق ہے۔ کلیم اخترنے کہا کہ وقف ایکٹ کو اور زیادہ مضبوط کیے جانے کی ضرورت ہے۔ اِسی کے ساتھ اُنھوں نے مشورہ دیا کہ ایک سروے ٹیم کو ہائر کرکے باقاعدہ وقف جائیداد کا سروے کیا جانا چاہئے۔ اِس موقع پر موجود پرویز باری نے کہا کہ وقف جائیداد کی حفاظت کو لے کر زمینی سطح پر کام کیا جانا چاہئے۔ میٹنگ میں شریک اقبال مسعود نے کہا کہ وقف کی جائیدادوں کی حفاظت کے لیے جو کمیٹیاں بنائی جائیں اُس میں قدیم تاریخ دانوں اور سائنسدانوں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے تاکہ کسی بھی عمارت کی صحیح تاریخی نوعیت کا پتہ چل سکے۔ میٹنگ میں شامل ڈاکٹرمہرالحسن نے کہا کہ ہمیں وقفیہ جائیدادوں کے تحفظ کے لیے دوراندیشی سے کام لینا چاہئے اور لمبے وقت کا ایجنڈا تیار کرنا چاہیے تاکہ اوقاف کی حفاظت ہوسکے۔ جاوید اختر صاحب نے کہا کہ سبھی جماعتوں کی مشترکہ کمیٹی بنائی جانی چاہیے جوکہ وقف جائیدادوں کی نگرانی کرے اور صوبائی اور ضلعی سطح پر دفتروں کا بھی قیام کیا جانا چاہئے۔ محمد ماہر ایڈوکیٹ نے کہا کہ وقف بورڈ میں کبھی بھی چیف ایکزیکیٹو آفیسر مستقل نہیں رہتا ہے، جس کی وجہ سے وقف کے کاموں میں دشواری پیش آتی ہے۔ اِسی کے ساتھ وقف بورڈ کے چیف ایکزیکیٹو آفیسر کو آئی ایس رینک کا ہونا چاہئے اور اِس کے لیے ہمیں حکومت سے یہ مانگ رکھنا چاہئے تاکہ اوقاف کے کاموں میں آسانی ہوسکے۔ محمد کلیم ایڈوکیٹ نے کہا کہ تمام وقف جائیدادوں کا سروے کیا جانا چاہئے اور جن لوگوں نے اوقاف کی جائیدادوں پر قبضہ کر رکھا ہے اُن لوگوں کی نشاندہی کرکے عوام کے سامنے لانا چاہئے اور جہاں کہیں بھی وقف کی جائیدادیں موجود ہیں اُن کے بارے میں تشہیر کی جانی چاہئے جس سے عوام کو یہ پتہ چل سکے کہ کہاں پر وقف کی جائیدادیں موجود ہیں اور عوام کو وقف جائیدادوں کو لے کر بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔
آج کی اِس میٹنگ میں اتفاق رائے سے مختلف تجاویز پاس کی گئیں، جس میں: اوقاف کے سلسلہ میں گردوارہ پربندھک ایکٹ کی طرز پر قانون لا نے کی تجویز۔ وقف قانون 1995ء میں درستگی کے لئے تجاویز۔ وقف قانون 1995ء کی پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے بل کی مخالفت کے لئے تجویز۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کے ذریعہ وقف جائیدادوں کے سلسلے میں جو فیصلے آئے ہیں اُن کا جائزہ لینا اور حالیہ فیصلے کے تناظر میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا۔ واقف کی منشاء کے مطابق جائیداد کا استعمال ہونے پر تجویز۔ اوقاف کے تحفظ کے لئے بیداری مہم چلانے کی تجویز۔ ہر سطح پر لیگل کمیٹی کا قیام۔ جوجائیدادیں وقف ہیں اور غیروں کے اپنوں کے اور سرکاری قبضے میں ہیں اِن کی درخواست اور سروے پر غور۔ آثارِقدیمہ کی یادگار مساجد، دیگر وقف مدارس،سرائے وغیرہ کے مسائل پر غور اور ان کو دوبارہ استعمال میں لانے کے لئے قانونی پہلوؤں پر غور، صوبائی اور ضلعی سطح پر وقف کانفرنسوں کے انعقاد اور تاریخ کے تعین پر غوروخوض۔
آج کی میٹنگ میں کئی دانشور حضرات نے شرکت فرمائی اور اپنے مفید مشوروں سے نوازا، جن میں مفتی محمد سعیداختر، حاجی محمد عمران، حاجی محمد حنیف، مولانا یاسر، مولانا حنیف، محمد فضل خان، مولانا اطہرندوی، حافظ ساجد، وسیم الحق ندوی، حافظ عمران سون کچھ، مولانا جاوید اشوک نگر،مولانا رافع علی، مولانا عرفان، مولانا انصار، مولانا عمارشامل ہیں۔