بھوپال۔6 مارچ(رپورٹر) گذشتہ روز مولانا آزاد سینٹرل لائبریری بھوپال میں بھوپال ہسٹری فورم نے ایک تقریب ”بھوپال ریاست کا اتیہاس 1722-1949“کتاب کے رسم اجراءکا اہتمام کیا ، اس کتاب کو شاہنواز خان اور اشہرقدوائی نے ترمیم کیا ہے ۔ اس کتاب میںبھوپال کی مکمل تاریخ پر کام کیا گیا ہے۔یہ کتاب ہندی رسم الخط میں ہے۔اس میں رانی کملا پتی سے آزادی تک کا تحقیقی ذکر ہے۔کتاب میں بھوپال کی تہذیب، خلوص، محبت، اپنائیت،علم وادب،نوابی دور میں خواتین کے حقوق،ہاکی،بھوپال ڈاک ٹکٹ یعنی تحریر اور تصویر۔دونوں کی عکاسی بہت صاف اور معلوماتی ہےarcheological,dept, سے بھی مدد لی گئی ہے۔اس تاریخی اور یادگار پروگرام میںرضیہ حامد صاحبہ، ایڈوکیٹ شاہنواز خان ، سنتوش چوبے ،ممتاز بیگ ،رضوان الدین انصاری ،خالد غنی ،خالد محمدخان ،کلیم اختر ، اشعر قدوائی سمیت کئی اہم شخصیات نے شرکت کی اور تقاریر سے محفل روشن کر دی۔لائبریری کی سیکریٹری صاحبہ نے بھی بہت اہم گفتگو کی۔بہت سے قصے کہانیوں سے الگ ہٹ کے حقائق پر بات کی گئی۔کتاب میںبھوپال کے بھارت سرکار میں مرج ہونے کا ذکر کیا گیا۔پروگرام میں بزرگوں کے علاوہ نوجوان حضرات نے اور خواتین نے بھی شرکت کی۔کتابوں پر ڈسکاؤنٹ دیا گیااور کتابیں بہت شوق سے خرید گئیں،ایسا محسوس ہواکہ نوابی دور کی یہ عمارت اہلِ علم کا استقبال کر رہی ہے۔
بھوپال ریاست کو لیکر اب تک آپ نے سنا ہوگا کہ اس کا وفاق بھارت میں انضمام آزادی ملنے کے تقریباً دو سال بعد ہوا تھا لیکن بھوپال ہسٹری فورم نے منگل کو اس کے برخلاف بتایا۔ فورم کی ’’بھوپال ریاست کا اتیہاس‘‘ (1949-1722) عنوان سے شائع کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ بھوپال اسٹیٹ کے بھارت میں انضمام کے دستاویز پر نواب حمید اللہ خاں نے 14 اگست 1947 کی رات 8:15 بجے دستخط کئے تھے۔ اس کی بنیاد انسٹومینٹ آف ایکشن ہے۔ اس دستاویز کی نقل کتاب میں شائع کی گئی ہے۔ 333 صفحات کی اس کتاب کا اجراء رویندر ناتھ ٹیگور یونیورسٹی کے چانسلر ڈاکٹر سنتوش چوبے نے کیا۔ جبکہ ماہر ماحولیات راجیندر کوٹھاری مہمان خصوصی کے طور پر موجود رہے۔ ڈاکٹر چوبے نے کہا کہ یہ کتاب ہمیں بھوپال کی مستند جانکاری فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے رویندر ناتھ ٹیگور سے جڑا ایک قصہ سناتے ہوئے کہا کہ وہ 1931 میں بھوپال آئے تھے۔ لوٹنے کے بعد نواب حمید اللہ خاں کو ایک خط میں لکھا تھا کہ میرے ساتھ آئے لوگوں نے اپنی خوب خاطر کرائی اور بیش قیمتی تحفے بھی بھی لئے تھے۔ اس کے لیے انہیں افسوس ہے۔ مہمان خصوصی کوٹھاری نے بتایا کہ بھوپال کی ایک پہچان میواتی گھرانے سے رشتہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ نواب حمید اللہ خاں کے موسیقی کار نذیر خاں تھے۔ ان کی قبر بھوپال میں ہے۔ اس کی جانکاری ہمیں پنڈت جسراج سے ملی۔
بھوپال ہسٹری فورم کے کنوینر ایڈوکیٹ شاہنواز خان نے دعویٰ کیا کہ ولینی کرن آندولن (انضمام تحریک) تو مدھیہ بھارت صوبہ انضمام کی تحریک تھی۔ اس کے پہلے ہی بھوپال ریاست کا مرجر حکومت بھارت ہوچکا تھا۔ نواب حمید اللہ خاں کو آئین کی تشکیل ہونے تک انتظامی صورت حال کی دیکھ بھال کے لئے کہا گیا تھا۔ اس کا ثبوت ہمیں انسٹومینٹ آف ایکسیس کے ڈاکیومینٹ سے ملتا ہے۔ اس دستاویز پر نواب حمیداللہ خاں اور گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے دستخط ہیں۔ نواب حمید اللہ نے بھارت سرکار سے گزارش کی تھی کہ اس کی جانکاری عام نہ کریں۔
سات ابواب پر مشتمل اس کتاب میں مختلف مصنفین کے 48 مضامین اور کچھ نایاب تصاویر ہیں۔ کتاب میں ایک خط کی نقل کے حوالے سے ذکر ہے کہ نواب حمید اللہ خاں نے سردار پٹیل کو 26 اگست 1947 کو خط لکھ کر اپنی ریاست کو بھارت میں ضم کرنے کی بات کہی۔ اس کے علاوہ یوم آزادی 15 اگست 1948 کو بھوپال ریاست میں چھٹی رکھنے کے گزٹ نوٹیفکیشن کی فوٹو کاپی بھی شائع کی گئی ہے۔ 2 اکتوبر 1948 کو گاندھی جینتی منانے کے لیے بھوپال ریاست میں چھٹی کے اعلان کے حکم نامے کی کاپی بھی ہے۔
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہان فکر میں ثروت
کہ جنکے دم سے رنگ و نور کی آباد ہے دنیا
محترم ایڈوکیٹ شاہنواز خان نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
کتاب میں۔ آخری صفحات۔ کچھ اردو میں بھی ہیں۔۔
آرٹ اور ڈیزائن ۔ کے لیے فیصل متین۔ کا ورک بہت شاندار ہے۔