نئی دہلی: گیانواپی تنازعہ میں مسجد کمیٹی نے سپریم کورٹ میں الہ آباد ہائی کورٹ کے اس حکم کو چیلنج کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہندو فریقین کے وارانسی کی سول عدالت میں زیر التوا مقدمات پر عبادت گاہوں سے متعلق قانون، 1991 کے سبب سماعت بند نہیں کیا جا سکتی۔ یہ مقدمہ 1991 میں ہندو عبادت گزاروں اور دیوتاؤں کی جانب سے دائر کیا گیا تھا، جس میں گیانواپی مسجد میں عبادت کا حق اور متنازعہ مقام پر مندر کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ جمعہ (یکم مارچ) کو سپریم کورٹ میں گیانواپی کیس کی سماعت ہوئی۔ اس کیس میں انجمن انتظامیہ مساجد کمیٹی اور دیگر مسلم فریقوں نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے، جس میں مسلم فریق کی ملکیت کا مطالبہ کرنے والی پانچوں درخواستوں کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ مسلم فریق نے کہا کہ ورشپ ایکٹ 1991 میں الہ آباد ہائی کورٹ کی مداخلت درست نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے گیانواپی کمیٹی کے ذریعہ مندر کی بحالی سے متعلق مقدمہ کو اس معاملے سے متعلق دیگر زیر التوا مقدمات کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس جے بی پارڈی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے کہا، ہم اسے اہم کیس سے جوڑیں گے۔ واضح رہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ سال 19 دسمبر کو ان مقدمات کو خارج کر دیا تھا جن میں گیانواپی مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر کی مانگ کرنے والے 1991 کے مقدمے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ کسی بھی متنازعہ جگہ پر صرف عدالت ہی فیصلہ کر سکتی ہے۔ اس نے مسجد کمیٹی اور اتر پردیش سنی سنٹرل وقف بورڈ کی طرف سے برسوں سے دائر پانچ متعلقہ عرضیوں کو خارج کر دیا تھا۔ جج جسٹس روہت رنجن اگروال کی بنچ نے سنی سنٹرل وقف بورڈ اور انجمن انتظامیہ مساجد کمیٹی کی درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا جس میں ملکیت تنازعہ کے مقدمات کو چیلنج کیا گیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ مقدمہ ملک کی دو بڑے طبقے کو متاثر کرتا ہے۔