رانچی 28فروری:جھارکھنڈ کے جامتاڑا میں بدھ کی شب دردناک ٹرین حادثہ پیش آیا جس میں اب تک کم از کم 12 افراد کی موت سے متعلق اطلاع موصول ہو رہی ہے۔ یہ حادثہ کالاجھریا کے پاس پیش آیا ہے جہاں ٹرین کی زد میں آنے سے درجن بھر افراد کی موت ہو گئی اور کئی دیگر زخمی بھی ہوئے ہیں۔ زخمیوں میں سے کئی کی حالت سنگین بنی ہوئی ہے۔ حالانکہ ریلوے نے فی الحال دو اموات کی ہی تصدیق کی ہے، جبکہ جامتاڑا کے رکن اسمبلی عرفان انصاری نے تین اموات کی بات کہی ہے۔ تاریکی کے سبب ریسکیو مہم میں پریشانی پیش آ رہی ہے۔ ہندی نیوز پورٹل ’ٹی وی 9‘ میں شائع خبر کے مطابق حادثہ کا شکار ہونے والے لوگ اَنگ ایکسپریس میں سوار تھے۔ اچانک کسی نے اَنگ ایکسپریس میں آگ لگنے کی خبر پھیلا دی۔ اس افواہ کی وجہ سے کئی مسافر چلتی ٹرین سے قریبی ریلوے ٹریک پر کود گئے۔ اسی درمیان سامنے سے آ رہی جھاجھا-آسنسول ٹرین ٹریک پر موجود مسافروں کے اوپر سے گزر گئی۔ حادثہ کی خبر ملتے ہی ریلوے پولیس اور مقامی انتظامیہ کے افسران جائے وقوع پر پہنچے اور زخمیوں کو علاج کے لیے قریبی اسپتال روانہ کیا۔ مقامی لوگ بھی راحت رسانی میں پولیس و انتظامیہ کی مدد کر رہے ہیں۔ اس درمیان مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جامتاڑا-کرماٹانڈ کے درمیان کالاجھریا ریلوے ہالٹ پر ٹیکنیکل فالٹ کی وجہ سے ایک ٹرین رکی تھی۔ کچھ مسافر ٹرین سے اتر کر ریلوے ٹریک پر کھڑے تھے۔ تبھی وہاں سے ایک دیگر ٹرین گزری جس کی زد میں کئی لوگ آ گئے۔ زخمیوں کو ایمبولنس کی مدد سے اسپتال لے جایا گیا ہے۔ جامتاڑا کے ڈپٹی کمشنر کا اس واقعہ کے تعلق سے جو بیان آیا ہے اس میں انھوں نے کہا کہ ’’کالاجھریا ریلوے اسٹیشن پر ٹرین نے مسافروں کو کچل دیا۔ کچھ اموات کی خبر ملی ہے۔ اموات کی صحیح تعداد کی تصدیق بعد میں کی جائے گی۔ میڈیکل تیمیں اور ایمبولنس موقع پر پہنچ چکی ہیں۔‘‘ جامتاڑا کے رکن اسمبلی عرفان انصاری نے اس حادثہ پر افسوس ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس وقت رانچی میں ہیں اور خبر ملتے ہی جامتاڑا کے لیے نکل رہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ جس کسی کی لاپروائی سے یہ حادثہ ہوا ہے وہ بخشے نہیں جائیں گے۔ جنگی سطح پر ریسکیو کا عمل جاری ہے۔ ریل حادثے کے شکار کنبوں کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔ فی الحال اس بات کی بھی تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ مسافر چلتی ٹرین میں آگ لگنے کی افواہ سے کودے ہیں یا پھر ریلوے ٹریک پر کھڑے رہنے کے دوران دوسری ٹرین کی زد میں آ گئے۔ ضلع انتظامیہ اور ریلوے انتظامیہ کی طرف سے ابھی تک کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا ہے۔