چنڈی گڑھ 18فروری:ایم ایس پی کی قانونی ضمانت جیسے مطالبات کے لیے جاری کسان تحریک میں شامل کسانوں نے شمبھو بارڈر پر اب ایک نئی بستی بسا لی ہے۔ گوکہ یہ بستی عارضی ہے لیکن اس میں کسانوں کے احتجاج کے کئی رنگ نظر آ رہے ہیں۔ ٹرکوں اور ٹریکٹروں پر مشتمل یہ بستی 5 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے، جس میں 15 ہزار سے زائد کسان موجود ہیں۔ رات ہوتے ہی یہ ٹرک و ٹریکٹر بیڈ رومز و کچن میں تبدیل ہو جاتے ہیں جبکہ ان پر لگے لاؤڈاسپیکرس پر دن بھر مختلف گانے بجتے رہتے ہیں۔ اس عارضی بستی میں ضروریاتِ زندگی کی ہر شئے موجود ہے۔ ایک گھر میں جن جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، کسان وہ سب اپنے ساتھ لائے ہیں۔ گیس سیلنڈر، لکڑیاں، دودھ کے ڈبے، آلو و پیاز کی بوریاں، آٹا، دال، چاول، مصالحے اور یہاں تک کہ گھروں میں تیار کی گئی کھانے پینے کی اشیا تک ان ٹرکوں وٹرالیوں میں موجود ہیں۔ ان کی مقدار دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ 6 ماہ کے لیے کافی ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسان اس تحریک میں 6 ماہ کی تیاری کے ساتھ حصہ لینے آئے ہیں۔ ’امراجالا‘ میں شائع رپورٹ کے مطابق لوگ سبزیاں اور دیگر اشیاء بھی لے کر پہنچ رہے ہیں۔ کسان بھی اپنے ساتھ برتن، کپڑے، صابن، تیل وغیرہ لے کر آئے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ یہ تحریک طویل عرصے تک چل سکتی ہے۔ گدوں کے نیچے بھوسے رکھنے کا بھی انتظام ہے۔ ہر ٹرالی پر ایک بلب نصب ہے۔ ایک ٹرالی میں بارہ افراد کے رہنے کی گنجائش ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ ’’یہ ہمارا بیڈ روم ہے۔ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہمیں یہاں کتنے دن رہنا ہے۔ گھر سے نکلنے سے قبل ہی ہمیں اندازہ تھا کہ یہ لڑائی طویل عرصے تک چلے گی۔‘‘ موہی خورد گاؤں کے رہنے کسان تیجندر سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’کچھ سیاستدان اور عام لوگ کسانوں کے احتجاج کو یہ کہہ کر بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ علاحدگی پسندوں کی تحریک ہے، جو حکومت کو بلیک میل کرنا چاہتی ہے۔ جبکہ یہ سراسر غلط ہے۔ کسان اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلے ہیں۔ ہمارے گرووں نے ہمیں یہی تو سکھایا ہے کہ ہمیں سب کی خدمت کرنی ہے۔ انصاف کرنا اوپر والے کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’کسان مضبوط ارادوں، لنگر اور اتحاد کی طاقت کے ساتھ اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھیں : نواز شریف نے کیوں نہیں پہنا وزیراعظم کا تاج ؟
ADVERTISEMENT

اسی کسان تحریک میں اور اسی شمبھو بارڈر پر گزشتہ دنوں ایک بزرگ کسان گیان سنگھ کی موت ہو گئی تھی۔ یہاں پر احتجاج کر رہے کسان تنظیموں کے کسان لیڈران مرنے والے کسان کی آخری رسومات میں شریک ہونے کے لیے ان کے گاؤں گیے۔ اس موقع پر ان لیڈران نے کہا کہ ’’گیان سنگھ کی موت کی وجہ مرکزی حکومت کا آمرانہ رویہ ہے۔‘‘ کسان لیڈر بلبیر سنگھ نے کہا کہ ’’گیان سنگھ کی موت سے ہمارے کسان تحریک کو تقویت ملی ہے اور ایم ایس پی کا مطالبہ منظور ہونے کے بعد ہی کسان اب واپس جائیں گے۔‘