بھوپال:16فروری:آج نماز جمعہ سے قبل بھوپال کی مسجد یعقوب خاں شاہ جہاں آباد میں قاضی شہر مولانا سید مشتاق علی ندوی مدظلہٗ نے اپنے ایمان افروز خطاب میں مسلم معاشرے کی سب سے اہم ضرورت ’بچیوں کی دینی تعلیم و تربیت ‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ نیک صالح اولاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہے، رحمت وبرکت ہے، والدین کیلئے حصول جنت کا ذریعہ ہے۔سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نیک وصالح اولاد کی دعا مانگی تھی:رب حب لی من الصالحین، فبشرنا ہ بغلام حلیم۔ میرے پروردگار! مجھے ایک ایسا بیٹا دے جو نیک لوگوں میں سے ہو، چنانچہ ہم نے انہیں ایک بردبار لڑکے کی خوشخبری دی۔ معلوم ہوا کہ نیک صالح اولاد کے حصول کی دعا کرنا سنت انبیا ء ہے۔
اولاد میں بھی بیٹی بیش بہا عطیہ خدا وندی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: اللہ جس کو چاہتا ہے، لڑکیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے۔
بعض مفسرین نے آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ بچوں پر بچیوں کا مقدم کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بچیوں کی قدر ومنزلت زیادہ ہے ۔اس لئے لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی پیدائش پر زیادہ خوش ہونا چاہئے، احادیث مبارکہ میں بچیوں کی پرورش، دیکھ ریکھ کے بارے میں بڑے فضائل وارد ہوئے ہیں۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی میں اور وہ دونوں جنت میں اس طرح داخل ہوں گے (یہ فرماتے ہوئے آپ نے اپنی دونوں انگلیوں یعنی انگشت شہادت اور اس سے متصل انگلی کو ملا کر اشارہ فرمایا)
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس شخص کے پاس دو لڑکیاں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے جب تک کہ وہ دونوں اس کے ساتھ رہیں یا وہ ان دونوں کے ساتھ رہے تو وہ دونوں لڑکیاں اسے جنت میں پہنچائیں گی۔
قاضی صاحب نے فرمایا کہ اتنی بڑی خوشخبری لڑکوں کیلئے نہیں بلکہ صرف لڑکیوں کی عمدہ تعلیم وتربیت کیلئے آئی ہے، صالح تربیت پر والدین کو جنت جیسی لازوال نعمت کی خوشخبری سنائی گئی ہے ۔
حاضرین مسجد کی توجہ مبذول کراتے ہوئے قاضی صاحب نے فرمایا کہ اب ہمیں دیکھنا ہے کہ ہمارے موجودہ معاشرہ میں بچیوں کی صحیح تربیت ہورہی ہے یا نہیں، کیونکہ یہی کونپلیں کل امت کی مائیں ہوں گی، آج اگر ان کی صحیح تربیت ہوگی تو کل ان کی گود میں پلنے والے اسلام کے ہیرو ہوں گے، یہ سچ ہے کہ بچے بچیوں کی تعمیر و ترقی کا سرچشمہ ماں کی گود ہی ہے، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ ہوتی ہے، یہیں سے ان کی تعلیم وتربیت کا آغاز ہوتا ہے، اس درسگاہ میں جو کچھ ان کے ذہن و دماغ پر مرتسم ہوتے ہیں وہ زندگی بھر باقی رہتے ہیں:
خشتِ اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
معمار جب پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھتا ہے تو اخیر تک دیوار ٹیڑھی ہی رہتی ہے۔
موجودہ دور میں بچیوں کی تعلیم وتربیت میں بڑی غفلت برتی جارہی ہے،ہم اپنی بچیوں کی عمر کے بنیادی اور ابتدائی کچھ سال ( پانچ ،چھ سال کی عمر) یوں ہی ضائع کردیتے ہیں حالانکہ یہی عمر بچیوں کا سنورنے کا ہوتا ہے ، اس عمر میں ان کا ذہن و دماغ خالی ہوتا ہے جو کچھ اس میں ڈالا جائے گا وہ پتھر کی لکیر کی سی ہوجائے گی،
(باقی صفحہ 7 پر)
انہیں سب سے پہلے اللہ و رسول کا نام ،کلمہ شہادتیں، سورۂ اخلاص، سونے، اٹھنے،کھانے پینے وغیرہ کی دعائیں یاد کرائی جائیں، توحید و رسالت کی حقیقت ان کے دل و دماغ پر بٹھائی جائے، سلام وکلام اور اسلامی آداب سکھائے جائیں،نماز کی دعائیں یاد کرائیں، گھر کی مستورات جب نماز ادا کریں تو انہیں بھی اپنے قریب لاکر بیٹھائیں،جب سات سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں نماز کا حکم دیں ۔
حدیث شریف میں سب سے پہلے سب سے مہتم بالشان عبادت نماز کی پابندی کرانے کا حکم ہے، حالانکہ اس عمر میں ان پر نماز فرض نہیں ہے لیکن شوق و رغبت دلانے کیلئے ایسا کرنا ضروری ہے تاکہ رفتہ رفتہ ان کی نماز کی عادت ہوجائے ۔ اس عمر میں نماز کے حکم سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ انہیں تمام دیگر نیکیوں کے کام میں لگانا چاہئے۔
اسی طرح اس عمر کی بچیوں کو عموماًلباس وپوشاک میں کوئی خاص خیال نہیں کیا جاتا ہے بلکہ اس عمر میں بچیوں کالباس خود والدین شوق سے الگ الگ ڈیزائن کے لاتے اور پہناتے ہیں، اس پر بچیوں کو داد و تحسین سے بھی نوازتے ہیں، ہمارے معاشرہ میں اکثر و بیشتر آٹھ ،دس سال تک کی بچیوں کو جنس و ٹی شرٹس پہنایا جا رہا ہے، بعض ایسے ملبوسات ہوتے ہیں جس میں آدھے پیر کہنیاں عریاں ہوتی ہیں، بعض اتنا باریک و تنگ ہوتے ہیں کہ جس کی وجہ سے جسم کی بناوٹ نمایاں ہوتی ہیں ۔
بعض والدین سے جب کہا جاتا ہے کہ ایسے کپڑے نہ پہنائیں تو خود والدین کہتے ہیں کہ ابھی تو یہ بچیاں ہیں،جب بڑی ہوں گی تو نہیں پہنیں گی، جب کہ ظاہر کا اثر باطن پر پڑتا ہے، معلوم ہونا چاہئے کہ ہر لباس اپنا اثر رکھتا ہے۔ لباس کا معاملہ اتنا سادہ اور اتنا آسان نہیں ہے کہ آدمی جو چاہے پہنتا رہے اس لباس کی وجہ سے اس کے دین پر اس کے اخلاق پر اس کی زندگی پر اس کے طرز عمل پر کوئی اثر واقع نہ ہو۔
قاضی شہر نے نمازیوں کو باور کراتے ہوئے فرمایا کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اور اس کو شریعت نے تو ہمیشہ بیان فرمایا اور اب نفسیات اور سائنس کے ماہرین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ انسان کے لباس کا اس کی زندگی پر اس کے اخلاق پر اس کے کردار پر بڑا اثر واقع ہوتا ہے، لباس محض ایک کپڑا نہیں ہے جو انسان نے اٹھا کر پہن لیا بلکہ یہ لباس انسان کے طرز فکر پر اس کی سوچ پر اس کی ذہنیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔
اس لئے چھوٹی چھوٹی بچیوں کو بھی ایسے ہی کپڑے پہنائیں جو شرعی لباس ہوں تاکہ آگے چل کر ان کو ذہن و دماغ میں شرعی لباسوں کی اہمیت اور اس کی قدروقیمت باقی رہے، پھر انہی کی گود میں اہل اللہ اور بڑے بڑے اسلام کے جیالے تیار ہوں گے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو اپنی شریعت مطہرہ پر حاضر قلبی اور پوری رغبت و چاہت سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔