نئی دہلی10فروری: سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز اس وائرل واقعے میں ملوث بچوں کو کونسلنگ کی سہولیات فراہم کرنے میں اتر پردیش حکومت کی ناکامی پر سخت موقف اختیار کیا، جس میں ایک اسکول ٹیچر کو طلباء کو ایک مسلمان طالب علم کو تھپڑ مارنے کی ہدایت کرتے دیکھا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کی مکمل خلاف ورزی پر روشنی ڈالتے ہوئے جسٹس ابھے ایس اوکا اور اجول بھوئیاں پر مشتمل بنچ نے ریاستی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ اگلی سماعت سے پہلے تعمیل کا تازہ حلف نامہ داخل کرے۔ بنچ نے زور دیا کہ ریاستی حکام کو ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز (ٹی آئی ایس ایس) کی طرف سے گزشتہ سال اگست میں مظفر نگر، اتر پردیش میں پیش آنے والے واقعے کے سلسلے میں کی گئی سفارشات کو سختی سے نافذ کرنا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ اس معاملے کی مزید سماعت یکم مارچ کو کرے گا۔ سپریم کورٹ نے پچھلی سماعت میں زبانی طور پر ریمارکس دیئے تھے کہ اگر وائرل ویڈیو سچا پایا جاتا ہے تو یہ واقعہ ’ریاست کے ضمیر کو جھنجوڑ دے گا‘۔ اس نے تبصرہ کیا، ’’اگر کسی طالب علم کو محض اس بنیاد پر سزا دینے کا مطالبہ کیا جائے کہ وہ کسی خاص کمیونٹی سے ہے تو کوئی معیاری تعلیم نہیں ہو سکتی۔‘‘ خیال رہے کہ وائرل ہونے والی ویڈیو میں نجی اسکول کی استانی کے حکم پر ساتھی طالب علموں کو ایک سات سالہ بچے کو تھپڑ مارتے دیکھا گیا، نیز اس کے عقیدے کا تضحیک آمیز انداز میں ذکر کیا جا رہا تھا۔ سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں واقعے کی بروقت اور آزادانہ تحقیقات کی ہدایت کرنے اور اسکولوں میں مذہبی اقلیتوں کے طلباء کے خلاف تشدد کو روکنے کے لیے رہنما خطوط قائم کرنے کی مانگ کی گئی ہے۔