بھوپال:03؍مئی:(پریس ریلیز) ۴؍ مئی کا دن برصغیر کی تاریخ میں ایک عظیم، غیرتمند، اور بے مثال سپاہی و حکمران کی یاد دلاتا ہے۔ یہ دن شہادت ہے اُس بہادر، انصاف پسند اور اصول پرست بادشاہ کا جسے دنیا ”شیر میسور” ٹیپو سلطان کے نام سے جانتی ہے۔
یہ وہ بادشاہ ہیں جس نے انگریزوں کی غلامی قبول کرنے کے بجائے شہادت کو ترجیح دی۔ وہ حکمران تھے، مگر غیرت و حمیت ان کے لہو میں تھی۔ آج جب اُن کا یومِ شہادت آتا ہے ، تو ملک کی فضا میں عدل و انصاف کی کمی، بدامنی، اور گرتے ہوئے اخلاقی اقدار اس کی غیرت بھری قیادت کو مزید یادگار بنا دیتا ہے۔ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے کہ کہیں ہم نے ایسے کرداروں کو صرف تاریخ کی کتابوں تک محدود تو نہیں کر دیا؟
ٹیپو سلطان کسی مخصوص فرقے، قوم یا ذات کو ترجیح نہیں دیتے تھے بلکہ اُن کا پیغام پورے بھارت کے لیے تھا۔ اُنہوں نے اپنی حکمرانی میں عدل و انصاف کو بنیاد بنایا۔ اُن کے دورِ حکومت میں ہر مذہب، ہر ذات، ہر فرد کو یکساں حقوق حاصل تھے۔ وہ صرف تلوار کے شہسوار نہ تھے، بلکہ ان کی ریاست میں فلاحی کاموں کا بھی سلسلہ تھا ، تمام کاموں کی فراوانی تھی اور چاروں سمت ان کا بول بالا تھا۔
ٹیپو سلطانؒ نے خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے جو اقدامات کیے، وہ نہ صرف اپنے وقت کے لیے انقلابی تھے بلکہ آج کے دور میں ”بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ” جیسے نعروں کا عملی نمونہ کہے جا سکتے ہیں۔ اُس عہد میں عورت کو کمتر، حقیر اور محض ایک جنسی شے سمجھا جاتا تھا۔ خاص طور پر نچلی ذات کی عورتیں : دلت، شودر، اور دیگر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین — جنہیں نہ عزتِ نفس کا حق حاصل تھا اور نہ ہی تن ڈھانپنے کی آزادی۔ معاشرے کا جبر اس قدر سنگین تھا کہ ان عورتوں پر جسم ڈھکنے پر جرمانے اور تشدد کیا جاتا۔ ایسی ہی ایک خاتون تھی ننگیلی، جس کا تعلق کیرالہ کے علاقے سے تھا۔ جب اس پر ننگے جسم رکھنے کے ٹیکس کا تقاضا کیا گیا تو اس نے اپنی چھاتی کاٹ کر اسے ٹیکس کے طور پر پیش کیا۔یہ احتجاج صرف اُس کا ذاتی ردِعمل نہ تھا بلکہ ایک عہد کے خلاف خاموش انقلاب تھا۔
ایسے ہی پس منظر میں ٹیپو سلطانؒ کا یہ اعلان کہ ”ہر عورت کو پردے اور حیا کا حق حاصل ہے، خواہ وہ کسی بھی ذات، مذہب یا طبقے سے تعلق رکھتی ہو” ایک عدالتی انقلاب سے کم نہ تھا۔ اُن کے اس فرمان کے بعد ریاستِ میسور میں نچلی ذات کی خواتین کو وہ سماجی تحفظ ملا جس سے وہ پہلی بار خود کو انسان سمجھنے لگیں۔ ٹیپو سلطانؒ نے عورتوں کے لیے تعلیمی مواقع، وراثت کے حقوق، اور معاشرتی وقار کو قانونی شکل دی، جو کہ اُس دور میں کسی ہندو یا مسلمان حکمران کے ہاں عام نہ تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ اُن کے دور میں عورت کو باپردہ زندگی، تعلیم، اور جائیداد میں حصہ جیسی نعمتیں ملیں، جو صدیوں تک فقط اونچی ذات کی خواتین کو دستیاب تھیں۔ اُنہوں نے ریاستی سطح پر اُس نظام کو چیلنج کیا جو عورت کے بدن کو بھی ٹیکس کے قابل سمجھتا تھا، اور عورت کے حجاب کو نہ صرف مذہبی بلکہ انسانی حق قرار دیا۔ آج جب ہم خواتین کے حقوق کے حوالے سے قانون سازی کی بات کرتے ہیں، تو ٹیپو سلطانؒ جیسے انقلابی حکمران کی مثال ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ایک ریاست تبھی انصاف پر قائم ہو سکتی ہے جب اُس میں ہر انسان، خصوصاً ہر عورت، کو اُس کا بنیادی حق حاصل ہو۔
اُنہوں نے تعلیم کو عام کرنے اور بچیوں کی تعلیم پر زور دیا۔ اُن کا ماننا تھا کہ ”کسی قوم کی ترقی اُس کی عورتوں کی تعلیم سے مشروط ہے۔” اُنہوں نے مدارس، لائبریریاں، اور تربیتی ادارے قائم کیے جہاں خواتین بھی زیورِ علم سے آراستہ ہو سکیں۔
ٹیپو سلطانؒ کی سب سے خوبصورت پہچان اُن کا بین المذاہب اتحاد تھا۔ اُن کا وزیرِ اعظم پنڈت پورنیا ایک ہندو تھا، جو اُن کے قریب ترین مشیروں میں شامل تھا حالانکہ بعد میں اس نے غداری کی۔ اُنہوںنے پورا اختیار دے رکھا تھا کہ وہ ریاستی امور میں فیصلے کر سکے۔ یہ اُس دور کی مثال ہے، جب مذہب، ذات، یا عقیدے کی بنیاد پر تفریق نہ کی جاتی تھی، بلکہ صلاحیت کو معیار بنایا جاتا تھا۔
آج جب ہمارا معاشرہ فرقہ واریت، ذات پات اور مذہبی تعصب کا شکار ہے، تو ہمیں ٹیپو سلطانؒ کی تعلیمات اور طرزِ حکمرانی کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے۔ اُن کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ اصل طاقت تلوار میں نہیں، انصاف میں ہے۔
ٹیپو سلطانؒ نے انگریزوں کی غلامی قبول نہیں کی، بلکہ اپنی جان دے دی، مگر کبھی سر نہیں جھکایا۔ اُن کا وہ مشہور قول آج بھی ہمارے دلوں میں گونجتا ہے:
”شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔”
آج ملک میں حالات افسوسناک ہیں۔ مذہب اور شناخت کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان تفریق بڑھتی جا رہی ہے۔ کہیں نام پوچھ کر مار دیا جاتا ہے، کہیں مسجد میں عبادت کرنے والوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اور کہیں گائے کے نام پر بے گناہوں کو سرِ بازار پیٹ پیٹ کر مار دیا جاتا ہے، انسان کا نام ہی زندگی اور موت کے فیصلے کا پیمانہ بن چکا ہے۔ تعلیمی اداروں، شہروں، اور سڑکوں کے نام تک بدلے جا رہے ہیں تاکہ تاریخ کا چہرہ مسخ کر کے صرف ایک مخصوص نظریے کو غالب کر دیا جائے۔اور یہ نام محض اس بنیاد پر بدلے جا رہے ہیں کہ وہ کسی خاص مذہب یا شخصیت سے منسوب تھے۔ یہ حالات نہ صرف جمہوری اقدار کے منافی ہیں بلکہ انسانیت کے بنیادی اصولوں سے بھی ٹکراتے ہیں۔یہ وہ دور ہے جہاں تعصب نے انصاف کو دبا دیا ہے، اور نفرت نے بھائی چارے کی جگہ لے لی ہے۔
ایسے ماحول میں ٹیپو سلطان کا عدل و انصاف اور مذہبی ہم آہنگی پر مبنی طرزِ حکومت ایک روشن مثال بن کر سامنے آتا ہے۔ انہوںنے کبھی کسی کی شناخت، مذہب یا ذات کو اس کی عزت یا انصاف سے محروم کرنے کا ذریعہ نہیں بنایا۔ اگر آج کی حکومت بھی اُن کے طرزِ فکر کو اپنائے، تو بھارت ایک بار پھر اتحاد، انصاف اور انسانیت کا نمونہ بن سکتا ہے۔
دریں اثنا اورنگزیب رحمہ اللہ کے خلاف جو زہر اگلا گیا، اور ان کی قبر پر سیاست کی گئی، وہ نہ صرف تاریخ سے جہالت کا ثبوت ہے بلکہ سماج میں نفرت کے بڑھتے ہوئے زہر کا بھی پتہ دیتی ہے۔ ایک باشعور قوم اپنے ماضی کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے ، بلکہ اُس سے سبق سیکھ کر حال کو بہتر بناتی ہے۔ لیکن آج ہمارے بزرگوں کی توہین کی جارہی ہے بلکہ فرقہ پرستی کو ہتھیار بنا کر سماج کو بانٹنے کی کوشیش کی جا رہی ہے۔ ٹیپو سلطان اور اورنگزیب جیسے کردار ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اصل قیادت وہی ہوتی ہے جو دین، عدل اور غیرت پر مبنی ہو — اور یہی پیغام آج ہمیں سب سے زیادہ درکار ہے۔
شہید ٹیپو سلطان ایک ایسے بادشاہ ہیں جو ملک کی حفاظت کرتے ہوئے میدان جنگ میں شہید ہوئے۔ ۴ مئی، یومِ شہادت ٹیپو سلطانؒ صرف ایک تاریخی دن نہیں، بلکہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمیں بھی انصاف، برابری، خواتین کے حقوق، تعلیم اور قومی اتحاد کے لیے آواز بلند کرنی ہے۔ایس-سی، ایس-ٹی اور دلتوں کو انصاف دلانے کے لئے پُر زور آواز بلند کرنا ہوگی، جو منووادی -پونجی وادی عناصر بدنام کرنے میں لگے ہوئے ہیں انہیں ہر جگہ سے اُکھاڑ پھینکنا ہے یہی اس دن کا پیغام ہے۔ ٹیپو سلطانؒ آج بھی زندہ ہیں ۔ ہماری سوچ میں، ہمارے اصولوں میں، اور ہر اُس انسان میں جو ظلم کے خلاف کھڑا ہوتا ہے۔