بھوپال، 19 اپریل:آج نماز جمعہ سے قبل قاضی شہر حضرت مولانا سید مشتاق علی ندوی مدظلہٗ نے ارکان حج پر اپنے خصوصی خطاب میں فرمایا کہ جہاں کلمہ طیبہ ،نماز ،روزہ اورزکوٰۃ کے بارے میں ہر مسلمان کا آگاہ ہونا ضروری ہے وہاں اسلام کے پانچویں رکن حج کے بارے میں بھی مکمل معلومات رکھنا بے حد ضروری ہے خواہ ایک مسلمان حج کی استطاعت رکھتا ہویا نہ رکھتا ہو۔حج مالی اور جسمانی عبادت کا مجموعہ ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے التجا کی تھی کہ اے اللہ ہمیں حج کے مناسک سکھادے۔آپ کے بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام تک تو اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں پر حج ہوتا رہا لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا لوگوں نے مشرکا نہ افعال کو اس میں زیادہ سے زیادہ جگہ دے دی اور حج کے طریقوں کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ حضور اکرم ﷺ نے نہ صرف صحیح حج کرنے کا طریقہ بتایا بلکہ صحابہ کرام ؓ سے فرمایا کہ مجھ سے مناسک حج سیکھ لو۔ حج ایک ہی وقت میں فریضہ حج کی ادائیگی بھی ہے اور عشقِ الٰہی کا اظہار بھی۔مختصر سے عرصہ کیلئے اپنے معاملاتِ زندگی کو اللہ کی رضا کیلئے یکسر بدل کر”حاضر ہوں یا اللہ میں حاضر ہوں۔حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں ،میں حاضر ہوں۔بلاشبہ تمام تعریفیں ،تمام نعمتیں اور تمام بادشاہتیں تیرے ہی لئے ہیں۔تیرا کوئی شریک نہیں ” پکارتے ہوئے حج بیت اللہ کیلئے گھر بار ،مال و دولت ،آل اولاد کو چھوڑ کر روانہ ہونا اور مخصوص طریقہ سے مخصوص لباس (احرام ) میں حج کے بعض افعال اداکرنا اور بعض اپنے معمول کے لبا س میں ادا کرنا حج کہلاتا ہے۔مناسکِ حج و عمرہ کے بارے میں ایک عازم حج کیلئے جاننا فائدہ مند بھی ہے اور حضو راکرم ؓکے ارشاد کی تعمیل بھی۔شروع میں جب سفر کی جدید سہولتیںمیسّر نہیں تھیںتو راستہ بھر قافلے مناسکِ حج سیکھتے ہوئے جاتے تھے۔بحری سفر بھی تقریباً ایک ہفتہ کا ہوتا تھا اس دوران بھی سیکھنے سکھانے کا موقع میسر آجاتا تھا اب جبکہ بحری سفر ختم ہو چکا ہے اور بذریعہ ہوائی جہاز جدہ پہنچنے کیلئے چند گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ اس لئے اس مختصر وقت میں مناسکِ حج و عمرہ سیکھنا بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔معلمین کا نظام ختم ہوکر موئسسہ یعنی کا رپو ریشن بن جانے سے ان کے ذمہ صرف ٹرانسپورٹ اور خیموں کی فراہمی کی ذمہ داری باقی رہ گئی ہے نہ تو طواف اور سعی اور نہ ہی حج کے پانچ دنوں میں معلمین سے کوئی مدد ملتی ہے۔علمائے کرام تو شروع سے ہی عازمین حج کی تربیت کا کام کرتے چلے آرہے ہیں۔ جس طرح سائنس کی ترقی سے سفر کی سہولتیں جدید ہوگئی ہیںاسی طرح عازمین حج اپنی گوناگوں مصروفیات کے باعث یہ چاہتے ہیں کہ ان کا وقت بھی کم خرچ ہو اور معلومات بھی زیادہ سے زیادہ حاصل ہوں۔پڑھنے کیلئے اچھی سے اچھی حج کی کتابیں پہلے بھی ملتی تھیں اور اب بھی ملتی ہیں لیکن جس طرح ایک طالب علم بغیر کسی استاد کے صرف کتابوں سے استفادہ کرکے امتحان پاس نہیں کر سکتا اسی طرح حج کی کتابوں کے اصل مفہوم کو سمجھنے کیلئے کسی سکھانے والے کی ضرورت پیش آتی ہے۔دوسری بات استاد کی ضرورت کی وجہ یہ بھی ہے کہ حرمین شریفین میں توسیع و ترقی سے بعض مقامات کی ہیئت اب وہ نہیں رہی جو پرانی کتابوں میں درج ہے۔ اللہ کے مہانوں کی رہنمائی کرنے سے اللہ خوش ہوتا ہے اس لئے موجود ہ دور کے علمائے کرام ، درد دِل رکھنے والے حجاج اور بعض حج کی تنظیموں نے اس کا رخیر میں بے لوث حصہ لینا شروع کر دیا ہے۔جس کی وجہ سے نہ صرف تعلیم یافتہ عازمین حج بلکہ ان پڑھ عازمین حج بھی فائدہ حاصل کررہے ہیں جوکہ حج کی کتابوں کا مطالعہ کرنا تو دور کی بات ہے اپنی مادری زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان سے بھی واقفیت نہیں رکھتے۔سمعی و بصری طریقہ بے حد مؤثر اور عام فہم ہوتا ہے۔آڈیو اور ویڈیو کیسٹ اس میں مزید فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔ماڈل ،چارٹ،نقشے اور تصاویر وغیرہ سامنے رکھ کر اگر تربیت کا کام کیا جائے تو ذہن پر گویا نقش ہو جاتا ہے۔وزارت مذہبی اْمور بھی اس سلسلے میں عازمین حج کو ذرائع ابلاغ کے ذریعہ حج لٹریچر مہیا کرکے اور مختلف مقامات پر تربیتی پروگرام منعقد کرکے مکمل آگہی دینے کی کوشش کرتی ہے لیکن ان پروگراموں میں بعض لوگ شرکت نہیں کر سکتے۔ٹی وی پر فلم دکھائی جاتی ہے لیکن وہ نہیں دیکھ سکتے اور وہ پروگرام اپنے وقت کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔آج کل عازمین حج کی نصف گورنمنٹ اسکیم اورتقریباً نصف تعداد پرائیویٹ ا سکیم کے تحت فریضئہ حج کی ادائیگی کیلئے جاتے ہیں۔حج پالیسی کا اعلان کرتے وقت تربیت پر زور دینے کیلئے خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر جتنی اس کی ضرورت ہے اس کا اندازہ نہیں لگایا جاتا۔ عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ حج گائیڈ اور حج سی ڈی تیار کرانے سے کام چل جائے گا۔لوگ مطالعہ بھی کرلیں گے اور سی ڈیز دیکھ کر حج کے مناسک ادا کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔مگر ایسا نہیں ہوتا۔ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا سے تمام عازمین حج فائدہ حاصل نہیں کر سکتے۔ایک تو اکثر ناخواندہ ہوتے ہیں دوسرے ہر گھر میں بجلی موجود نہیں ہے جس کے بغیر تمام کوششیں بیکار ثابت ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں عملی اور بصری دونوں طرح کی تربیت کی سخت ضرورت ہے۔بعض الفاظ ایسے بولے اور لکھے جاتے ہیں جو عام بول چال میں بھی مستعمل ہوتے ہیں۔جب سادہ لوح عازمین حج وہ الفاظ پڑھتے یا سْنتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں الجھائو پیدا ہوجاتا ہے۔ مثلاً سڑکوں پر بیٹھنے والے نجومی فال، رمل وغیرہ سے قسمت کا حال بتاتے ہیںوہی لفظ رمل جب حج کی کتابوں میں پڑھتے یا سنتے ہیں توازخود ان میں فرق محسوس نہیں کرسکتے جب تک کوئی فرق بتانے والا نہ بتائے۔اسی طرح چند الفاظ اور بھی ہیں۔مثلاً سعی،پنجابی میں سعی چلتے چلتے جب تھک جائیں تو سستانے کو کہتے ہیں جب کہ حج کی اصطلاح میں صفا مروہ کے درمیان چلنے کو سعی کہتے ہیں۔عام بول چال میں حلق گلے کو جبکہ حج کی کتابوں میں سر کے بال منڈ وانے کو حلق کہتے ہیں۔وزار ت مذہبی امور قرعہ اندازی میں کامیاب ہونے والوں کو مبارک باد کے خط میں تربیت کا مقام اور تاریخ بتا دیتی ہے۔جہاں سے کافی حد تک انتظامی امور اور مناسک حج کے بارے میں آگاہی مل جاتی ہے لیکن صرف ایک پروگرام سے مقصد پورا نہیں ہو سکتا اس سلسلے میں پروگراموںکی تعداد میں اضافہ کرنا ضروری ہے۔گوکہ تربیت عازمین حج کا کام نجی سطح پر پورے ملک میں درد مند حضرات کی معاونت سے جاری و ساری ہے ۔قاضی مشتاق صاحب نے تمام عازمین حج کو تاکید کی کہ وہ مقررہ طریقہ کے مطابق حج کے ارکان ادا کریں تاکہ وہ اللہ کے ہاں مقبول ہوں۔انہوں نے کہا کہ حج اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں سے ایک ہے۔ صاحب حیثیت مسلمانوں پر حج کرنا فرض ہے۔ انہوں نے کہا کہ دین اسلام قیامت تک تمام انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے، جو شخص اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک کو بھی چھوڑ دے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ مکمل کشادہ دلی اور نیک نیتی کے ساتھ حج ادا کریں۔