نئی دہلی17اپریل: سپریم کورٹ آف انڈیا میں آج وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے خلاف دائر مختلف عرضیوں پر سماعت ہوئی، جس میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون اور ایڈوکیٹ آن ریکارڈ منصور علی خاں نے نمائندگی کی۔ جمعیۃ علماء ہند کے جاری کردہ پریس بیان کے مطابق، صدر جمعیۃ مولانا محمود اسعد مدنی نے سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس قانون کو وقف جائیدادوں کے لیے ایک ’سنگین خطرہ‘ قرار دیا اور کہا کہ اس کا اصل مقصد وقف کی حیثیت کو بدلنا اور ان جائیدادوں پر قبضہ جمانا ہے۔ مولانا محمود مدنی نے کہا کہ عدالت نے اصولی طور پر ان نکات کو تسلیم کیا ہے جو ان کی جانب سے پیش کیے گئے، جن میں خاص طور پر غیر مسلموں کی شمولیت بلکہ اکثریت، ’وقف بائی یوزر‘ کی قانونی صورت کا خاتمہ، اور کلکٹر کو وقف کی حیثیت تبدیل کرنے کا اختیار دیے جانے جیسے نکات شامل ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’یہ خدشات صرف ہماری تنظیم کے نہیں بلکہ آج ملک کے ہر دانشور طبقے کے ہیں، جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس ایکٹ کے خلاف ملک بھر میں مختلف طبقات کی جانب سے احتجاج کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔‘‘ دوسری جانب سپریم کورٹ نے وقف (ترمیمی) ایکٹ پر عبوری روک لگانے سے انکار کر دیا، تاہم وقف املاک کی موجودہ قانونی حیثیت برقرار رکھنے کی ہدایت جاری کی۔ عدالت نے حکم دیا کہ کوئی بھی وقف جائیداد، خواہ وہ رجسٹرڈ ہو یا وقف بائی یوزر کے تحت ہو، اس کی موجودہ حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ عدالت کا یہ عبوری حکم اگلی سماعت تک نافذ العمل رہے گا۔
مرکزی حکومت کی نمائندگی سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے کی، جنہوں نے ابتدائی جواب داخل کرنے کے لیے سات دن کی مہلت طلب کی، جسے عدالت نے منظور کر لیا۔ حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ قانون لاکھوں عوامی شکایات کے پیش نظر بنایا گیا ہے، جن میں پورے کے پورے دیہات یا متعدد زمینوں کو وقف قرار دیے جانے پر تشویش ظاہر کی گئی تھی۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے واضح کیا کہ عدالت اس مقدمے میں صرف پانچ عرضیوں پر سماعت کرے گی، جب کہ باقی عرضیوں کو نمٹا دیا جائے گا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ آئندہ سماعتوں میں اس مقدمے کو ’رپلائی وقف ترمیمی ایکٹ‘ کے عنوان سے سنا جائے گا، جب کہ وقف ایکٹ 1995 اور 2013 کی ترامیم سے متعلق مقدمات کو الگ سے سنا جائے گا۔ معاملہ کی اگلی سماعت 5 مئی کو مقرر کی گئی ہے۔