نئی دہلی 15اپریل:ان دنوں پورے ملک میں وقف قانون کو لے کر سیاسی اور سماجی سطح پر زبردست بحث چھڑی ہوئی ہے۔ ملک بھر میں مسلم تنظیمیں اور عوام وقف قانون میں ترمیم کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، وہیں مختلف اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ اسی درمیان پیر، 14 اپریل کو وزیر اعظم نریندر مودی نے ہریانہ کے ایک انتخابی جلسے میں وقف سے متعلق ایک متنازع بیان دیا، جس پر ملک بھر میں ردعمل کا طوفان آ گیا ہے۔ وزیر اعظم نے اپوزیشن جماعتوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا، ’’اگر وقف کی جائیداد کا صحیح استعمال ہوا ہوتا تو مسلم نوجوانوں کو پنکچر نہیں بنانا پڑتا۔‘‘ وزیر اعظم کے اس بیان کو مسلمانوں کی معاشی حالت پر طنز اور ایک مخصوص طبقے کو نیچا دکھانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اسدالدین اویسی نے مودی سے سوال کیا کہ گزشتہ گیارہ برسوں میں انہوں نے غریب ہندوؤں یا مسلمانوں کے لیے کیا کام کیا؟ اویسی نے کہا، ’’آج 33 فیصد ہندوستانی بغیر تعلیم اور روزگار کے زندگی گزار رہے ہیں۔ وقف کی زمینوں کا نقصان اس لیے ہوا کیونکہ قانون اور نظام ہمیشہ کمزور رہا۔ اور اب آپ کی ترمیمات اسے مزید کمزور کر دیں گی۔‘‘ کانگریس کے راجیہ سبھا رکن عمران پرتاپ گڑھی نے بھی وزیر اعظم پر طنز کرتے ہوئے کہا، ’’مجھے حیرت ہے کہ جو وزیر اعظم نوجوانوں کو پکوڑے بیچنے کا مشورہ دیتے تھے، آج وہی پنکچر بنانے کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ آپ نے نوجوانوں کو نہ پکوڑے تلنے لائق چھوڑا، نہ پنکچر بنانے کے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ مسلمان اس ملک میں صرف پنکچر نہیں بناتا بلکہ ہندوستانی معیشت میں بھرپور کردار ادا کرتا ہے۔ مہاراشٹر سے سماج وادی پارٹی کے رکن اسمبلی ابو اعظمی نے بھی سخت ردعمل دیا۔ انہوں نے کہا، ’’اگر آپ کہہ رہے ہیں کہ وقف کی جائیداد کا صحیح استعمال ہوا ہوتا تو مسلمان غریب نہ ہوتا، تو پھر مندر کی زمینوں کا حساب بھی دیجئے۔ صرف جنوبی ہندوستان کی چار ریاستوں میں مندروں کے پاس 10 لاکھ ایکڑ زمین ہے۔ کیا ان زمینوں سے آپ نے غریب ہندوؤں کی حالت بہتر بنائی؟ کیا غریب ہندو آج بھی مسائل سے دوچار نہیں؟