اعتکاف ایک روحانی عبادت ہے، اللہ تعالی رمضان المبارک میں اسے اپنے گھر میں بلاتا ہے ، جو رمضان کے آخری عشرہ میں کی جاتی ہے، اور اس کا مقصد اللہ کی رضا اور قربت حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہ عبادت مسلمانوں کے لئے اپنی زندگی کی مصروفیات سے کچھ دنوں کے لیے آزاد ہو کر اللہ کی عبادت میں مشغول ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اعتکاف کا لفظ عربی زبان سے نکلا ہے جس کا لغوی معنی “ٹھہرنا” اور “خود کو روکنا” ہے، اور شریعت میں یہ عبادت مسجد میں اللہ کے ذکر اور عبادت میں مشغول ہو کر کی جاتی ہے۔
اعتکاف کا مفہوم اور حکمت
اعتکاف کا مقصد دنیا کی تمام تر مشغولیات سے الگ ہو کر صرف اللہ کی عبادت اور ذکر میں خود کو ڈوبو دینا ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں یہ عبادت خاص طور پر اہمیت رکھتی ہے کیونکہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب شب قدر کی تلاش کی جاتی ہے، اور مسلمان اپنے گناہوں کی معافی اور اللہ کی قربت کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ اعتکاف میں انسان اپنی تمام تر دنیاوی تعلقات سے منقطع ہو کر، اللہ کی عبادت میں مشغول ہوتا ہے۔
اعتکاف کا حکم
اعتکاف کی مشروعیت قرآن و حدیث دونوں میں ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو مسجد الحرام میں طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے صفائی کی ہدایت دی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورہ البقرہ کی آیت 187 میں اعتکاف کی حالت میں اپنی بیویوں سے مباشرت سے منع کیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا، اور آپ کے بعد آپ کی بیویوں نے بھی اس سنت کو جاری رکھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق اعتکاف رمضان کے آخری عشرے کا ایک اہم عمل ہے، اور اس کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مسلمانوں نے اس سنت کو ترک کر دیا ہے حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اسے نہیں چھوڑا۔
اعتکاف کی مدت
اعتکاف کی مدت میں کچھ لچک ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا، لیکن اگر کسی کے حالات اجازت نہ دیں تو وہ سات دن، پانچ دن، یا صرف طاق راتوں کا اعتکاف بھی کر سکتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی سات درمیانی راتوں کا اعتکاف کرنے کی ہدایت دی۔
غیر رمضان میں اعتکاف
اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر رمضان میں اعتکاف نہیں کیا، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص نے نذر مانی ہو تو وہ غیر رمضان میں بھی اعتکاف کر سکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ اگر میں مسجد حرام میں نذر کے مطابق ایک رات کا اعتکاف کرنا چاہوں تو آپ کا کیا خیال ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی نذر پوری کرو۔
اعتکاف کا روحانی اثر
اعتکاف کی اصل روح اللہ کے ساتھ تعلق مضبوط کرنا اور دنیاوی معاملات سے کچھ دنوں کے لیے الگ ہو کر صرف عبادت میں مشغول ہونا ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کی ایک خاص روحانیت ہے، جو انسان کو روحانیت کی بلندیوں تک لے جاتی ہے اور اس کی زندگی کو نئے معنوں میں ڈھال دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اعتکاف کو ایک سنتِ مؤکدہ کے طور پر اختیار کیا جاتا ہے، اور اگر کسی محلے میں اس سنت کو ترک کیا جائے تو پورے محلے کے لوگ گناہگار ٹھہرتے ہیں۔
نتیجہ
اعتکاف ایک اہم عبادت ہے جو مسلمانوں کو دنیاوی مشغولیات سے الگ ہو کر اللہ کی رضا کی کوشش میں مشغول کرتی ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کی عبادت انسان کی روحانیت میں اضافہ کرتی ہے اور اسے اللہ کے قریب لے آتی ہے۔ اس عبادت کو صرف رسمی طور پر نہیں بلکہ اخلاص کے ساتھ ادا کرنا چاہیے تاکہ اس کے ثمرات انسان کی زندگی میں واضح طور پر نظر آئیں۔ رمضان کا یہ خصوصی وقت ایک مسلمان کے لیے روحانیت کو نکھارنے اور اللہ کی قربت حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔
محمد شاہد رحمانی
شعبہ صحافت جامعہ رحمانی مونگیر بہار
9006149757