بھوپال،21فروری:قاضی شہر مولانا سید مشتاق علی ندوی نے آج موتی مسجد بھوپال میں نماز جمعہ سے قبل اپنے معمول خطاب میں حاضرین مسجد کو عنقریب آنے والے ماہ مبارک ’رمضان المبارک‘ کی اہمیت و فضیلت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے لئے انتہائی مسرت و شادمانی اور روحوں کو تابندہ بنانے والا مہینہ ’رمضان المبارک‘ کی بس آمد آمد ہے ۔غالب امکان ہے کہ 2مارچ 2025سے رحمتوں ،برکتوں اور فضیلتوں سے معمور مہینہ ’رمضان المبارک‘ ہم ایمان والوں پر سایہ فگن ہوجائے ۔
عنقریب ملنے والی اس رحمت و برکت کے حوالے سے بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ دنیائے علم وعمل میں روشن و درخشاں نام استاذ محترم مولاناابوالحسن علی ندویؒ کے ماہ مبارک کے تعلق سے احساسات آپ حضرات کے گوش گزار کروں ۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ اپنی ایک تحریرمیں رقمطرازہیں کہ یہ روزہ دراصل اخلاقی تربیت گاہ ہے جہاں سے آدمی کامل ہوکراس طرح نکلتاہے کہ خواہشات کی لگام اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے،خواہشات اس پرحکومت نہیں بلکہ وہ خواہشات پرحکومت کرتاہے،جب وہ محض اللہ کے حکم سے مباح اورپاک چیزوں کوترک کردیتاہے تو ممنوعات اورمحرمات سے بچنے کی کوشش کیوں نہ کرے گاجوشخص ٹھنڈے میٹھے پانی اورپاکیزہ ولذیذ غذائیں خداکی فرمانبرداری میں چھوڑسکتاہے وہ حرام اورنجس چیزوں کی طرف نظراٹھاکردیکھناکیسے گوارہ کرسکتاہے اوریہی’’ لعلکم تتقون‘‘ کامفہوم ہے۔ گویاکہ جس مسلمان نے روزے کی حالت میں حلال وجائزچیزوں کو چھوڑدیاتھا مگر بعدرمضان حرام چیزوں کو نہ چھوڑسکاتووہ روزے کے مقصدسے محروم رہا۔ محترم حاضرین مسجد اللہ تعالیٰ نے عبادات کیلئے رمضان المبارک کا مہینہ مختص فرما کر اس کی فضیلت و اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے، کیوں کہ رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں، برکتوں، نعمتوں، سعادتوں اور انوار و تجلیات کا نزول عام دنوں کی بہ نسبت بہت زیادہ ہوتا ہے۔
روزے کامقصد ہے اہل ایمان کے اندر تقویٰ کی صفت پیدا کرنا ، متقی بنانا۔ اپنے آپ کو اپنے رب کی ناراضگی سے بچانا تقویٰ ہے۔ تقویٰ یعنی اللہ کا خوف تمام بھلائیوں کا مجموعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے وجود سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کیلئے تقویٰ کی وصیت فرمائی ہے۔ تقویٰ ہی کل قیامت کے دن نجات دلانے والی کشتی ہے۔ تقویٰ مومنین کیلئے بہترین لباس اور بہترین زادِ راہ ہے۔ یہ وہ عظیم نعمت ہے جس سے دل کی بندشیں کھل جاتی ہیں جو راستے کو روشن کرتی ہیں اور اسی کی بدولت گمراہ بھی ہدایت پاجاتا ہے۔ تقویٰ ایک ایسا قیمتی موتی ہے کہ اس کے ذریعہ برائیوں سے بچنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا بہت آسان ہوجاتاہے۔ روزے سے ہمیں اطاعت الٰہی، تزکیہ نفس، اخوت اور ہمدردی کا سبق ملتا ہے مثلًا روزہ دار اللہ تعالیٰ کے حکم سے حالتِ روزہ میں ایک خاص وقت پر کھانے پینے اور جائز خواہشات سے رک جاتا ہے۔ اپنی ایسی بنیادی ضروریات کو اطاعت الٰہی کی خاطر اپنے اوپر حرام کر لیتا ہے جن کو پورا کرنا دوسرے اوقات میں نہ صرف جائز بلکہ فرض ہوتا ہے۔ روزہ ہمارے اندر یہ بات راسخ کر دیتا ہے کہ اصل چیز اطاعت الٰہی ہے اور یہ کہ صرف حکم الٰہی ہی کسی چیز کے درست اور غلط ہونے کیلئے آخری سند ہے اور حق بندگی کا یہ سبق ہمیں روزہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح غریبوں کی تکلیفوں، ان کے فقر و فاقہ اور تنگ دستی کا احساس بھی حالتِ روزہ میں ہوتا ہے۔
جب روزہ دار خود سارا دن بھوکاپیاسا رہتا ہے تو اس کے اندر ایسے لوگوں کے بارے میں ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جو مستقل فقر و فاقہ سے دو چار رہتے ہیں چنانچہ روزہ دار اپنی بساط کے مطابق ان کے دکھوں کا مداوا اور ان کی تکلیفوں کو دور کرنے میں تعاون کرتا ہے۔ اس لئے مومنوں کا وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ سب مسلمان نفس واحد کی طرح ہیں اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہوتیہے تو اس کا سارا جسم درد محسوس کرتا ہے۔

خواجہ محمد ادریس ’کیف بھوپالی‘ کو کیا گیا یاد
بھوپال، 21 فروری:بتاریخ 20 فروری 1917 کو ادبی سرزمیں شہرِ غزل بھوپال میں پیدا ہوئے خواجہ محمّد ادریس حضرتِ کیف بھوپالی کی یاد ایک ادبی منعقد ہوا
جلسہ سید طہٰ پاشا صاحب کے دولت کدے “پاشا ہاؤس” واقع بدھوارہ چار بتّی بھوپال میں یادِ کیف کے عنوان سے منعقد ہوا جس کی صدارت ادیب محقق مبصر شاعر صحافی جناب اقبال مسعود صاحب نے فرمائی
جلسے میں خصوصی طور پر کیف بھوپالی صاحب کی دختر نیک اختر معروف شاعرہ ڈاکٹر پروین کیف صاحبہ موجود تھیں
نظامت کے فرائض شعیب علی خان شاد نے انجام دی
ایک مقبول اور کہنہ مشق شاعر حضرتِ کیف بھوپالی کے ساتھ بھوپال کے کئی شعراء کرام نے مشاعرے پڑھے ہیں اور کیف صاحب کی قربتیں ہمارے شہر کے سینئر شعراء کو حاصل رہی ہیں
مجلس کے صدر اقبال مسعود صاحب نے فرمایا کیف صاحب کی شاعری دنیا بھر میں مشہور تھی وہ اپنے کھان پان کا بہت خیال رکھتے تھے وہ اپنی ذاتی مجبوری کی وجہ سے دہلی ہوائی اڈے سے واپس آگئے تھے ورنہ وہ ہندوستان کے پہلے شاعر ہوتے جو اپنی شعری صلاحیتوں کی بدولت بیرونی ممالک کا سفر کرتے ان کے کئی اشعار فلمی نغمے بہت مشہور ہیں ان کی وہ غزل جو آج بھی سینکڑوں لوگوں کو یاد ہیں
اس زمانے میں ان کی شاعری میں نیا پن تھا جو دیگر شعراء میں نہیں ملتا تھا
تیرا چہرہ کتنا سہانا لگتا ہے
تیرے آگے چاند پرانہ لگتا ہے
ترچھے ترچھے تیر نظر کے چلتے ہیں
سیدھا سیدھا دل پہ نشانا لگتا ہے
حاضرین میں سینئر شاعر ظفر صہبائی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ “کیف صاحب وہ ایک شاعر ہی نہیں بلکہ ایک درویش صفت انسان تھے میں نے ان کے ساتھ بھوپال ہی میں نہیں بلکہ بھوپال سے باہر بھی کئی مشاعرے پڑھے
معروف شاعر فاروق انجم نے فرمایا کیف بھوپالی کی شاعری بلا کا فن تھا انھوں نے اپنی شاعرانہ صلاحیتوں سے بھوپال کا نام مشاعروں کی دنیا میں ہی نہیں بلکہ فلمی دنیا میں بھی روشن کیا ہے
ان کی صاحبزادی ڈاکٹر پروین کیف نے اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے اپنے طفلانہ زمانے سے لے کر ان کے انتقال تک کی کئی باتیں مجلس میں حاضرین کے سامنے پیش کیں
عارف علی عارف کہتے ہیں کیف صاحب کا غزل کہنے کا پڑھنے کا اپنا الگ ہی انداز تھا غزلیات کے ساتھ ساتھ انکی نظمیں بڑی مقبول ہوئیں “بھوکا ہے بھوپال” کے عنوان سے ان کی یہ نظم بہت پسند کی گئی برکھا رت ، عید کا چاند ، میل کا پتھر ، مزدور کا کورس ، ریت کی دیوار وغیرہ
شہرِ غزل بھوپال کے معروف اور مقبول شاعر قاضی ملک نوید نے ان کی شاعری پر گہری نظر ڈالتے ہوئے فرمایا کیف صاحب کی شاعری نے اپنی بیک منفرد اور معیاری شناخت قائم کی تھی ان کا شاعرانہ علم اور ان کی فکری بصیرت دوسے شعراء سے مختلف تھی
قاضی ملک نوید نے ان کے چند اشعار پر بہت دیر تک تبصرہ فرمایا اشعار تھے
تھوڑا سا عکس چاند کے پیکر میں ڈال دے
تُو آکے جان رات کے منظر میں ڈال دے
جس دن مِری جبیں کسی دہلیز پر جھکے
اُس دن خدا شگاف مِرے سر میں ڈال دے
آتیرے مال و زر کی تقدیس بخش دوں
لا اپنا مال و زر مِر ٹھوکر میں ڈال دے
صاحبِ خانہ اور ایم پی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کے صدر سید طہٰ پاشا صاحب نے کہا کیف بھوپالی قلندر صفت انسان تھے پاشا صاحب نے کیف بھوپالی کے اشعار پڑھے جو ان کو یاد ہیں
انتظار کی شب میں چلمنیں سرکتی ہیں
چونکتے ہیں دروازے، سیڑھیاں دھڑکتی ھیں
ہر ایک قید ہر اک رسم توڑدی میں نے
کبھی شراب گھٹا دیکھ کر نہ پی میں نے
داغ دنیا نے دئیے زخم زمانے سے ملے
ہم کو تحفے یہ تمہیں دوست بنانے سے ملے
سرور حبیب صدیقی نے ان کے فلمی نغموں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ فلم شنکر حسین میں کیف صاحب کی وہ نظم بہت مقبول ہوئی جو محمد رفیع نے گائی ’’کہیں ایک معصوم نازک کی لڑکی‘‘ یا قلم پاکیزہ کے گیت ’’چلو دلدار چلو چاند کے پار چلو‘‘ چاند کے پار کا تصوّر ہے ان کی شاعرانہ صلاحیت کا ذامن ہے یہ وہ نغمہ ’’موسم ہے عاشقانہ‘‘
آخر میں سبھی حاضرین کی موجودگی میں حضرتِ کیف بھوپالی صاحب کی مغفرت کے کے لئے اجتماعی دُعا کی گئی ۔
سامعین میں محمد یوسف ثمین الظفر صدیقی نواب ممتاز خان بھی موجود تھے۔