نئی دہلی17فروری: عبادت گاہوں کا تحفظ قانون (پلیسز آف ورشپ ایکٹ) سے متعلق عرضیوں پر آج چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کے سامنے سماعت ہوئی۔ اس دوران چیف جسٹس نے گزشتہ سماعت میں دیے گئے اسٹے کو برقرار رکھتے ہوئے نئی عرضیوں پر نوٹس جاری کرنے کی جگہ انھیں عرضی کی شکل میں داخل کرنے کی ہدایت دی۔ چیف جسٹس کے مطابق اب اس معاملے کی سماعت 3 ججوں کی نئی بنچ آئندہ اپریل کے پہلے ہفتہ میں کرے گی۔ آج اس قانون کے خلاف 5 نئی عرضیاں سماعت کے لیے پیش کی گئی تھیں، لیکن عدالت نے ان پر نوٹس جاری کرنے سے انکار کر دیا۔ حالانکہ وکلا نے عدالت سے گزارش کی کہ اب تک داخل سبھی عرضیوں کو سماعت کے لیے منظور کیا جائے، لیکن عدالت نے کہا کہ کسی بھی چیز کی ایک حد ہوتی ہے، اور یہ حد عدالت کو طے کرنی ہے۔ اس لیے جن عرضیوں پر پہلے نوٹس جاری نہیں کیا گیا، ان پر اب نوٹس جاری نہیں کیا جائے گا، لیکن انھیں فریق کی شکل میں درخواست داخل کرنے کی اجازت ہوگی۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار کی بنچ نے آج ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ‘ کی حمایت اور خلاف میں داخل سبھی عرضیوں کی ایک ساتھ سماعت کی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود مرکزی حکومت نے ابھی تک اپنا حلف نامہ داخل نہیں کیا، جس پر اس قانون کے خلاف عرضی داخل کرنے والے وکلا نے ناراضگی ظاہر کی۔ اس پر چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ پہلے عرضیوں کے داخلے کا عمل پورا ہو جائے، اس کے بعد مرکزی حکومت سبھی عرضیوں پر ایک ساتھ حلف نامہ داخل کرے گی۔ آج عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ایڈووکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول (نوڈل کونسل) نے اب تک اس معاملے میں داخل سبھی عرضیاں کا اختصار پیش کیا، جسے چیف جسٹس نے منظور کیا۔ جمعیۃ کے صدر مولانا ارشد مدنی نے آج ہوئی قانونی کارروائی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔