بھوپال:08؍فروری:(پریس ریلیز)عام طور پر ادب کی دنیا سے وابستہ لوگ پوری زندگی میں چھ کتابیں نہیں لکھ سکتے ہیں لیکن ڈاکٹر سیفی سرونجی کی ایک ساتھ منظر عام پر آنے والی چھ کتابیں یہ بتاتی ہیں کہ ان کی زبان و ادب کی مختلف اصناف پر کتنی گہری نظر ہے۔وہ بیک وقت بہترین صحافی،نثر نگار،ناقد،انشائیہ نگار اور شاعر بے بدل ہیں۔ان خیالات کا اظہار آئی .پی.ایس ،سابق ڈی جی ایم ڈبلیو انصاری نے سرونج میں ڈاکٹر سیفی سرونجی کی کتاب کے رسم اجراء کے موقع پر کیا۔
انہوںنے کہا کہ آج کا دن بڑی خوشی کا ہے۔ڈاکٹر سیفی سرونجی کی ایک ساتھ چھ کتابوں کا اجرا کیا گیا ہے۔ غالباً ۱۹۸۳ء سے ڈاکٹر سیفی کا سہ ماہی رسالہ انتساب جاری و ساری ہے۔ آج اس رسالہ کو بیالیس سال مکمل ہوچکے ہیں اور اس بیالیس میں انہوں نے اپنی صحافت سے وہ کارہائے نمایاں انجام دی ہے جس کے لئے انہیں جتنی مبارکباد دی جائے کم ہے۔ لیکن اس موقع پر میں کہنا چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر سیفی سرونجی کو کچھ ایسا انتظام کرنا چاہئے جس سے کہ یہ رسالہ انتساب ہمیشہ ہمیشہ جاری رہے۔
آپ نے مزید کہا کہ صحافی حضرات بھارت اور پڑوسی ملکوں کے درمیان تعلقات کے استوار کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسلئے کہ صحافت ایک ایسا میدان ہے جو سب کو جوڑ سکتا ہے۔نیز میں تو ہر جگہ جاکر ہر پلیٹ فارم سے اُردو کے لئے آواز بلند کرنے کی بات کرتا ہوں ۔ اسلئے حکومت کا تعصبانہ رویہ اس پیاری زبان کے خلاف لوگوں کے ذہن میں گھول رہا ہے ۔ ہمیں نئی نسل کو اُردو رسم الخط سے روشناس کرانے کی بھی ضرورت ہے۔اُردو اداروں کا قیام اور ان کی بقاء یہ بھی نہایت اہم مسئلہ ہے اس پر ہم سب کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے جو ادارے سرکاری تعاون سے محروم کئے جارہے ہیں ان کے لئے بھی آواز بلند کرنا ہوگی۔غرضیکہ جہاں بھی اُردو کی بات ہوگی وہاں اُردو کو در پیش مسائل کا ذکر ضرور ہوگا۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر سیفی سرونجی کی ۸۶؍ کتابوں کی اشاعت کے بعد ان کی چھ نئی کتابوں کی تقریب رسم اجراء کے موقع پر سرونج میں ایک شاندار ،پُر وقار تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔ یہ پروگرام دو نشستوں پر مشتمل تھا۔پہلی نشست کی صدارت پروفیسر خالد محمود سابق وائس چیئرمین ، دہلی اُردو اکادمی نے کی ، جبکہ مہمان خصوصی ایم پی اُردو اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی رہیں۔
دوسری نشست کی صدارت اقبال مسعود نے کی جبکہ مقررین خصوصی سابق ڈی جی پی ایم ڈبلیو انصاری ، ڈاکٹر مہتاب عالم، ڈاکٹر اعظم وغیرہ۔