بھوپال:24؍جنوری:(پریس ریلیز) بھارت کی بیٹی اور ہندی کی بہن کہی جانے والی، یو این اُو کی آفیشیل زبان، بھارت کو ایک دھاگے میں جوڑنے والی پیاری زبان اُردو کے ساتھ سوتیلا سلوک تو اب عام سی بات ہوگئی ہے۔ماضی میں بھی سیاسی ریلیوں، یاترائوں، پروگراموں اور انتخابی اشتہار سے اُردو غائب رہی ہے، لیکن تازہ ترین معاملہ ملک کی دارالحکومت دہلی انتخابات سے جڑا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ دہلی میں اسمبلی انتخابات (Voting)۵ ؍ فروری کو اور نتائج کا اعلان ۸؍ فروری کو کیا جائے گا جس کی تشہیر زوروں پر ہے۔دہلی کا شاید ہی کوئی ایسا کونہ / علاقہ ہوگا جہاں انگریزی، ہندی اور پنجابی/ گورومکھی میں ڈھیر سارے اشتہارات نہ ہو،لیکن راجدھانی دلّی میں اُردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہونے کے باوجود برسراقتدار پارٹی سمیت حزب اختلاف تمام پارٹیوں کے انتخابی اشتہار اور انتخابی مواد سے اُردو غائب ہے۔بی جے پی سے تو کیا ہی امید کی جاسکتی ہے لیکن دہلی میں بر سر اقتدار عآپ پارٹی اور کانگریس پارٹی نیز باہر سے آکر کھیل بگاڑنے والی چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کا بھی رویہ اُردو کے تئیں غیر جانبدار اور تعصبانہ ہی رہا۔
سیاسی پارٹیوں کی طرف سے اب تک انتخابی تشہیر کے لیے جو بھی پوسٹر و بینر لگائے گئے ہیں شاید ہی کوئی اُردو میں یا اگر ہے بھی تو محض برائے نام اور وہ بھی ایسے علاقوں میں ہے جہاں اُردو کا تھوڑا بہت بول بالا جیسے پرانی دلّی، اوکھلا، جامعہ نگر، ذاکر نگر وغیرہ میں۔ ورنہ تو اردو رسم الخط سے پوسٹر و بینر اکثر خالی پڑے ہیں۔ راجدھانی دلّی میں سڑکوں اور چوراہوں پر اُردو میں جو نام لکھے گئے ہیں وہ بھی نہایت ہی گھٹیا رسم الخط میں ہیں۔مسلم اسمبلی حلقوں کے انتخابی جلسوں میں بھی پوسٹرو بینروں سے اردو غائب ہے۔تمام طرح کا انتخابی مواد یا تو رومن میں ہے یا ہندی میں اُردو ہر جگہ سے ندارد ہے۔
اس کے علاوہ جتنی بھی اُردو پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا ہے اولاً تو انہیں ایڈ دئیے ہی نہیں جاتے اور دئیے بھی جاتے ہیں تو غیر اُردو زبان میں ہوتے ہیں۔جو قابل افسوس ہے۔
اگر بات کی جائے اُردو میڈیا اور محبان اُردو کی ! تویہ حضرات بھی اپنے حقوق کے لئے آواز نہیں اُٹھاتے۔ دیگر تمام میڈیا کو سرکاری ایڈ وقتاً فوقتاً دئیے جاتے ہیں لیکن اُردو میڈیا کو اس سے استثنیٰ رکھا جاتا ہے۔نیز جو ایڈ دئیے بھی جاتے ہیں وہ اُردو رسم الخط میں نہیں ہوتے حالانکہ اُردو میڈیا کی روزی روٹی کا معاملہ اُردو زبان سے وابستہ ہے لیکن پھر بھی غیر اُردو زبانوں میں ایڈ کی تشہیر اپنے اخباروں اور چینلوں کے ذریعہ بلا چوں چرا کرتے ہیں۔تمام اُردو میڈیا کو حکومت سے اپیل کرنا چاہئے کہ جس طرح دیگر زبانوں میں اشتہار جاری کئے جاتے ہیں اسی طرح اُردو زبان میں بھی اشتہار جاری کیا جانا چاہئے۔تمام اُردو میڈیا کو چاہئے کہ وہ سرکار کو سبق سکھائیں ساتھ ہی ساتھ تمام سیاسی پارٹیوں کو بھی اس جانب توجہ دینے اور آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔
قابل غور ہے کہ دہلی اسمبلی انتخابات میں بھارت کی بیٹی اور ہندی کی بہن اُردو کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اُردو سے تعصب کے تئیں تمام سیاسی پارٹیاں یکساں ہی ہیں۔ کیا بی جے پی اور کیا کانگریس ، عام آدمی پارٹی ہو یا دیگر کوئی بھی پارٹی، سب کا رویہ ایک ہی ہے۔ بھارت جوڑو یاترا کے دوران جاری کئے گئے تمام پوسٹر میں تمام زبانوں کا لحاظ رکھا گیا لیکن اُردو غائب ہی تھی۔اب عام آدمی پارٹی کے بر سر اقتدار ہوتے ہوئے اور اُردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہوتے ہوئے بھی دہلی میں انتخابی اشتہار سے اُردو غائب ہے۔
یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ اُردو کسی خاص مذہب یا ذات دھرم کی زبان نہیں ہے بلکہ یہ بھارت کی زبان ہے بھارت میں پلی بڑھی ہے۔ ایک غلط پروپگنڈا کرکے اُردو کو محض مسلمانوں کے ساتھ خاص کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں یہ پیاری زبان تعصب کا شکار ہو رہی ہے۔ کیونکہ اگر دیکھا جائے تو مسلمانوں کے ساتھ بھی سیاسی پارٹیوں کا رویہ تعصبانہ ہی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم مجاہدین کا نام ہر جگہ مفقود ہی نظر آتا ہے۔ ماضی قریب میں کانگریس کے جاری کردہ اشتہار سے مولانا آزاد، علی برادران، مولانا حسرت موہانی، مولانا علی حسین عاصم بہاری وغیرہ کو غائب کر دیا گیا تھا اور اب مسلمانوں یا مسلمانوں سے ملتے جلتے ناموں کو تبدیل کر سیاست کی جارہی ہے۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سیاسی پارٹیاں آخر کیا ثابت کرنا چاہتی ہیں؟ نیز پارٹیاں تو قصوروار ہیں ہی، امیدواروں نے بھی اس پر کوئی آواز ابھی تک نہیں اُٹھائی ہے۔تمام امیدواروں کو چاہئے کہ وہ اپنی لڑائی خود لڑیں اور آواز بلند کریں۔اسی طرح محبان اُردو کو بھی اس ناانصافی کے خلاف آواز اُٹھانا ہوگی۔اگر واقعی بھول ہوئی ہے تو سیاسی پارٹیوں کو اپنی اس غلطی پر عوام سے معافی مانگنے کے ساتھ ساتھ غلطی سدھارنا ہوگی ورنہ اس کے نتائج تو انتخابات کے دوران دیکھنے کو ملیں گے ہی ساتھ ساتھ اُردو سے محبت رکھنے والے تمام دہلی و اطراف کے باشندے ایسی پارٹیوں سے دوری بنالیںگے۔نیز آئین میں ذکر کردہ زبان اور دہلی کی دوسری سرکاری زبان کے ساتھ یہ دوہرا رویہ ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو بھی داغدار کر یگا۔