یہ بات مشہور ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد جہاںنثر نگاری کے امام تھے، وہیں خطابت کے میدان کے عظیم شہ سوار بھی تھے، پلک جھپکتے ہی ہزاروں قلوب کے اندر انقلاب کی آگ بھر دیا کرتے تھے۔
وہیںمولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کے بارے میں مشہور ہیکہ اپنی خطابت کے سحر سے ہزاروں لوگوں کو جہادِ آزادی کے لئے کھڑا کر دیا کرتے تھے، اور یہ بات بھی مشہور ہے کہ سب کے مربی عظیم مصنف عظیم داعی اور سابق ناظم ندوۃ العلماء حضرت مولانا ابوالحسن علی حسنی ندویؒ نے اپنی خطابت کے ذریعہ ہی ہزاروں قلوب کو دین سے وابستہ کر دیاتھا، اور دینی تنظیموں میں روح پھونک دی۔ خاص طور سے مجلس مشاورت ، پیام انسانیت اور مسلم پرسنل لاء کی تحریک میں حضرت مولانا نے اپنی روح پھونک دی تھی، موجودہ علماء اور داعیان ان کی تقریروں سے کسب فیض کئے ہوئے ہیں، ان تمام چیزوں کے بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ ہمارے طلباء میں خطابت کی صلاحیت پیدا ہو اور وہ بھی خطابت کے فن کو سیکھیں ،اورسحبان وائل کانام زندہ کریں۔
واضح رہے کہ انشاء پردازی کاانحصار قلم پرہوتا ہے، جبکہ خطابت زبان پرانحصار کرتی ہے، خطابت کے دوبنیادی عناصر ہیں۔ (1) استدالال کی قوت اور زبان و بیان کی تاثیر ودلکشی (2) جذبات کی فراوانی خطیب اپنے حسن فکر و خیال کر کو پیش کرتا ہے تو اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دلیل و برہان ، زور بیانی اور طاقت لسانی کی قوت سے اسے سامعین کے دل میں اتار دے، اور ان کے احساسات و جذبات کو اپنی جانب کھینچ لے۔ یہیں سے ایک مدرس ، ایک فلسفی اور ایک خطیب کے درمیان امتیاز پیدا ہو جاتا ہے۔ ایک مدرس یا فلسفی، استدلال کا سہارا لیتا ہے اور عقل کو مخاطب بناتا ہے، جبکہ ایک خطیب سامعین کے جذبات میں تلاحم و تمویج کی لہریں ابھارتا ہے، جو خطیب انسانی جذبات کو چھیڑ کر عمل پہ آمادہ نہ کر سکے، وہ کوئی مدرس فلسفی یا عالم ہوگا، خطیب نہ ہوگا! انسانی زندگی میں جب آراء و افکار کے اختلافات سامنے آتے ہیں ، تو مخالف عنصر کوقائل کرنے یا اس کے جذبات کو استدلال اور زور بیانی کی قوت سے اپیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہیں سے خطابت جنم لیتی ہے، یوںتو انسان اور خطابت ہم عمر رہے ہیں، انبیاء علیہم السلام دنیا کے اول خطیب تھے، ان کی دعوت کا لب ولہجہ اور ان کے صحائف کا اسلوب خطیبانہ تھا، عظیم انسانوں کی مصلحانہ کوششوں اور ان کی تعلیمات کا آہنگ بھی خطیبا نہ رہا ہے۔
اگر آپ خطابت کے میدان میں فراٹے بھرنا چاہتے ہیں تو مندرجہ ذیل امور کو حرز جاں بنالیجئے ، اپنی سیرت وکردار کونکھارئیے ، اخلاص عمل اور نصب العین کی بلندی کو مطمح نظر بنائیے۔ زبان کی درستگی کی سمت خاص توجہ دیجئے۔ زبان میں سلاست اورطلاقت پیداکیجئے۔ الفاظ کے صحیح تلفظ کی سمت توجہ دیجئے، مطالعہ کا شوق ابھارنے کے ساتھ ساتھ ہرموضوع پر مطالعہ کیجئے۔آواز میں ترنم اورزیروبم پیداکیجئے۔اپنی شخصیت میں وجاہت ، متانت اورسنجیدگی پیداکیجئے، ان نصیحتوں پرعمل کرکے ہم ایک کامیاب خطیب اورمخلص داعی بن سکتے ہیں۔ ’’اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تندجولا بھی٭نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہوبالا‘‘۔پروگرام کئی عنوان پرمشتمل تھا، جسے کہ موبائل کی تباہ کاریاں،والدین کی خدمت،نماز کی فضیلت،اسلام میں عورت کا مقام ومرتبہ،متحد قوم کی اہمیت، دورِ حاضر میں پردے کی افادیت کے مصداق،’’تشنگی جم گئی پتھرکی طرح ہو نٹوں پر٭ڈوب کربھی میں ترے دریا سے پیاسانکلا‘‘۔پرمشتمل تھا۔
پروگرام میں اجین ومہدپور سے آئے حکم صاحبان نے طلبا کی صلاحیتوں کوسراہاا وران کی محنت کے مطابق اول ،دوم ،سوم کے لئے ناموں کااعلان کیا۔آخرمیںناظم دارالعلوم مولانامحمدمعاذ خان نعمانی ندوی نے دارالعلوم کاتعارف پیش کیااورتعلیم پروزور دیکرفرمایا کہ موجودہ وقت میں اپنے آپ کواوراہل خانہ سمیت پوری دینا کے لوگوں کے دلوں میں دین وشریعت کی اہمیت کوداخل کرنے کاواحد راستہ ہے کہ ہم خود اوراپنی اولاد کوعصری علوم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے آراستہ کریں۔پروگرام میں بھوپال شہربڑی مساجد کے ائمہ حضرات نے شرکت کی ،اس موقع پر تمام ائمہ حضرات کاان کی خدمات کے اعتراف میں دارالعلوم نے اعزاز بھی کیا۔ آخرمیں صدرجلسہ کی دعا پرپروگرام کااختتام ہوا۔