بھوپال:18؍دسمبر:(پریس ریلیز) بھارت میں مختلف مذاہب و ثقافت کے لوگ رہتے ہیں ۔ہر ایک کی اپنی اپنی روایت و تہذیب ہوتی ہے جس پر عمل کرنے کی پوری آزادی بھارت کے آئین نے ہر شہری کو دی ہے پھر چاہے وہ اکثریت میں ہو یا اقلیت میں۔ آئین نے ہر شہری کو بنیادی حقوق دئیے ہیں جنہیں چھینے نہیں جاسکتے ہیں۔۱۸؍ دسمبر کو پورے ملک میں اقلیتوں کے حقوق کا دن منایا جاتا ہے ،جس پر اقلیتی برادریوں کی فلاح و بہبود، ان کے حقوق اور ان کے تحفظ کے لیے حکومت اور معاشرتی سطح پر آگاہی بڑھائی جاتی ہے۔ بھارت میں سبھی مذاہب کے لوگ رہتے ہیں ۔جہاں مختلف اقلیتی معاشرے، جیسے مسلمان، عیسائی، سکھ، بدھسٹ، جینی، پارسی، اور دیگر اقلیتی اقوام موجود ہیں۔ ان اقلیتی برادریوں کو اپنے مذہبی، ثقافتی، اور سماجی حقوق کے تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ معاشرتی ترقی میں حصہ لے سکیں۔ہر سال اقلیتوں کے حقوق کے دن کو منانے مقصد بھی یہی ہے کہ اقلیتی برادریوں کے ساتھ معاشرتی انصاف اور مساوات کا فروغ ہو۔ اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے اور انہیں اپنے حقوق کے بارے میں بتایا جائے اور انہیں ان کے پورے حقوق دئیے جائیں۔بلا کسی تفریق کے تمام مذاہب و برادریوں کے ساتھ ساتھ اقلیتی برادریوں کو بھی یکساں حقوق ملے یہی اس دن کے منانے کا مقصد اصلی ہے۔ غور طلب ہے کہ جہاں ایک طرف پورے ملک میں اقلیتوں کے حقوق کا دن منایا جارہا ہے وہیں دوسری طرف ہمارے ملک کے اقلیتوں کا کیا حال ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ ملک میں جگہ جگہ تشدد ہو رہے ہیں۔ کبھی سی اے اے / این آرسی تو کبھی یو اے پی اے کے نام پر ہراساںکیا جارہا ہے۔ وقف بل ، حجاب، تین طلاق جیسے مدعے اُٹھاکر شرعی و مذہبی معاملوں میں دخل اندازی ہو رہی ہے۔بلڈوزر کلچر کے ذریعہ تمام طرح کی ظلم و زیادتی کی جارہی ہے۔ کہیں کوئی نوجوان پولیس کا شکار ہو رہا ہے تو کہیں بھیڑ کسی معصوم انسان کو قتل کر دیتی ہے۔ گائے کے تحفظ کے نام پر زبردستی بے گناہوں کو پیٹ پیٹ کر قتل کیا جارہاہے۔ پولیس کی موجودگی میں ہندو تو ا پسند لوگوںنے مسلمانوں کے گھروں پر حملے کئے اور ان کے کاروبار کو بر باد کرنے اور اپنے نفرت کے اظہار میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔کبھی بازاروں میں مسلم دکانوں کو نشان زد کر کے دھمکایا گیا، پوسٹر لگائے گئے اور ایک بڑی بھیڑ لا کر ان کے دکانوں پر حملے بھی کیے گئے اور پولیس تماش بین بنی رہی۔کبھی آسام میں پوسکو ایکٹ اور دیگر وجوہات سے پھر یوپی میں تو جگہ جگہ تشدد ہوئے، خواتین کی عصمت دری ہو ، مآب لنچنگ ہو، کورٹ میں قتل ہو یا پھر پولیس کی حراست میں قتل ہو، یہ سب کچھ ہوا اور ہو رہا ہے اور پولیس ایڈمنسٹریشن اور تمام سیاسی پارٹیاں تماش بین بنی رہیں۔اقلیتوں پر ہو رہے ظلم و زیادتی کے خلاف تمام نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے رہنما خاموش کیوں ہیں؟ یہ باعث تشویش ہے۔ اس خاموشی سے ووٹ نہیں ملنے والا ہے۔
ابھی بھی منی پور جل رہا ہے ،خاک ہونے کا انتظار ہو رہا ہے ۔ مدھیہ پردیش، راجستھان اور مہاراشٹرا کے بیشتر علاقوں میں ایس سی -ایس ٹی اور اقلیتوں کو مارا پیٹا اور جیل میں ڈالا گیا تو کبھی اتراکھنڈ میں اعلانیہ طور سے ۴۰ گھر کے مسلمانوں کو گھر سے نکالنے کا حکم جاری کر دیا گیا ۔معمولی سی بات پر حجاب کے بہانے سے دموہ کے گنگا جمنا اسکول پر بلڈوزر چلوا دیا گیا اور کبھی اُجین اور برہان پور میں آدیواسی اور اقلیتوں پر ظلم کیا گیا۔پتنگ ڈور معاملے میں پورا گھر ہی زمیں دوز کر دیا گیا۔ تبدیلیٔ مذہب کے الزام میں عیسائیوں کو جگہ جگہ پریشان کیا گیا ۔الغرض یہ کہ شاید ہی کوئی ایسا صوبہ ہو جہاں ایس سی -ایس ٹی، دلت ، عیسائیوں اور خاص کرکے اقلیت کے لوگ شکار نہ ہوئے ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ بابا صاحب کے بنائے ہوئے آئین میں جو حقوق اقلیتوں کو دئیے گئے ہیں ان سے آج اقلیتی برادری کو محروم کیا جارہا ہے۔آئین کی دفعہ ۲۵، ۲۶، ۲۹ ؍ اور ۳۰؍ میں اقلیتوں کو جو حقوق دئیے گئے ان سے آج تمام برادریاں محروم کی جارہی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اقلیتوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے اور انہیں اپنی عبادتگاہوں کی حفاظت کی ضمانت ملنی چاہیے۔لیکن آج بر سر اقتدار خود عبادتگاہوں کے تقدس کو پامال کر رہے ہیں ۔پہلے بابری مسجد، پھر گیان واپی، متھورا کی جامع مسجد اور اب سنبھل، اجمیر، دھار، دہلی، منگلورو، بدایوں، جونپور اور نہ جانے کتنے ہی شہر کی مساجد، مقبرے ، مزار کی بے حرمتی کی تیاری کی جارہی ہے جو کہ آئین کے خلاف تو ہے ہی ایک طبقہ مخصوص کے خلاف سوچی سمجھی سازش معلوم ہوتی ہے۔یہ ظلم و زیادتی ملک کی سالمیت کے لئے انتہائی خطرناک ہے اور نہ جانے کہاں جاکر یہ ظلم و زیادتی رُکے گی؟اور اگر نہیں رُکی تو کیا بھارت وِشو گرو بن پائے گا یا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بدحال، برباد اور اندر سے کئی خانوں میں بٹ جائے گا۔
اقلیتوں کو تعلیمی مواقع فراہم کرنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ معاشرتی اور اقتصادی ترقی میں حصہ لے سکیں۔ان کو اقتصادی طور پر خود مختار بنانے کے لیے خصوصی اسکیمیں اور پروگرامز تیار کیے جانے چاہئے۔سیاست میں برابر کی حصہ داری دی جانی چاہئے۔ وزارت برائے اقلیتی امورکی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوشاں رہے۔لیکن وزارت برائے اقلیتی امور (MOMA) تقریباً ختم ہو چکی ہے ۔ اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لئے جتنی بھی اسکیمیں تھیں انہیں بند کر دیا گیا ہے یا محض نام کو رہ گئیں ہیں۔ بجٹ ختم کر دیا گیاہے۔ اس کے تحت آنے والے ادارے MAEF اور NMFC کو ختم کیا جارہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ طلباء کے لیے اسکالرشپ اور تعلیمی وظائف جس طرح دیگر مذاہب و برادریوں کو فراہم کیے جاتے ہیں اسی طرح ان کے لئے بھی کئے جائیں۔لیکن تمام طرح کے وظیفے اور اسکالرشپ کو تقریباً تقریباً بند کر دیا گیا ہے یا محض نام کو باقی رہ گئیں ہیں۔ایک طرف تو ملک کے وزیر اعظم ’’ سب کا ساتھ، سب کا وِکاس‘‘ کا نعرہ دیتے ہیں وہیں دوسری طرف اقلیتوں کے ساتھ ہو رہی ظلم و زیادتی میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔
اخیر میں یہ کہ اس دن کے موقع پربس اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کا دن ایک ایسا موقع ہے جب ہم اپنے معاشرے میں مساوات، انصاف، اور بھائی چارہ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ بھارت میں ہر فرد، خواہ وہ کسی بھی مذہب، نسل یا ثقافت سے تعلق رکھتا ہو،اسے اپنے حقوق کی حفاظت کا حق حاصل ہے۔ اقلیتی برادریوں کو ایک محفوظ، ترقی پسند اور جامع معاشرتی ماحول فراہم کرنا ہر شہری کی ذمہ داری ہے، تاکہ ہر فرد اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکے۔