نئی دہلی30نومبر: سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ طویل تعلق کے اختتام یا شادی کا وعدہ توڑنے کو خودکشی پر اکسانے کے مترادف نہیں سمجھا جا سکتا۔ جج جسٹس پنکج متھل اور جسٹس اُجول بھوئیاں پر مشتمل بنچ نے کرناٹک ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا، جس میں ایک شخص کو اپنی گرل فرینڈ سے دھوکہ دہی اور خودکشی پر اکسانے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ نیوز پورٹل ’این ڈی ٹی وی ڈاٹ اِن‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ معاملہ قمرالدین دستگیر سندی کے خلاف تھا، جنہیں ہائی کورٹ نے پانچ سال کی سزا سنائی تھی۔ سپریم کورٹ نے یہ کہتے ہوئے ان کی سزا کو پلٹ دیا کہ ایس طرح کے کیسز جذباتی مسائل کے زمرے میں آتے ہیں، نہ کہ مجرمانہ جرائم کے۔ یہ معاملہ 21 سالہ خاتون کی خودکشی سے متعلق تھا، جو 8 سال تک قمرالدین دستگیر سے محبت کرتی رہی۔ ایف آئی آر کے مطابق، خاتون نے 2007 میں اس وقت خودکشی کی جب ملزم نے شادی کا وعدہ پورا کرنے سے انکار کر دیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ جذباتی طور پر مایوسی کے سبب اگر کوئی شخص انتہائی اقدام اٹھائے، تو اس کا الزام کسی دوسرے پر نہیں ڈالا جا سکتا جب تک کہ اس کی مجرمانہ نیت واضح طور پر ثابت نہ ہو۔ عدالت نے کہا کہ ایسے تعلقات کے ٹوٹنے سے انسان جذباتی طور پر پریشان ہو سکتا ہے لیکن یہ خودکشی پر اکسانے کا قانونی جواز فراہم نہیں کرتا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ایسے معاملات میں ملزم کو مجرم قرار دینا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کی مجرمانہ نیت ثابت نہ ہو۔ سپریم کورٹ نے کیس کے تمام شواہد کا جائزہ لے کر واضح کیا کہ نہ تو ملزم اور مقتولہ کے درمیان کوئی جسمانی تعلق ثابت ہوا اور نہ ہی خودکشی کے لیے اکسانے کا کوئی ثبوت موجود تھا۔ معاملہ میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے ملزم کو بری کر دیا تھا لیکن اپیل پر ہائی کورٹ نے سزا سنا دی۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کیس جذباتی معاملات سے متعلق ہے، نہ کہ دھوکہ دہی یا خودکشی پر اکسانے کا۔ سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ ایسے فیصلوں میں انسانی جذبات اور سماجی حالات کو سمجھنا ضروری ہے۔