نئی دہلی 30نومبر:ایک طرف اجمیر کے درگاہ کو لے کر تنازعہ جاری ہے، دوسری طرف اجمیر واقع قدیم مسجدوں میں سے ایک ’ڈھائی دن کا جھونپڑا‘ بھی تنازعات کے سایے میں ہے۔ نیا تنازعہ ڈھائی دن کا جھونپڑا میں پڑھی جانے والی نماز کے تعلق سے ہے۔ دراصل کچھ دنوں قبل ہندو اور جین مذہب سے تعلق رکھنے والے سَنت ڈھائی دن کا جھونپڑا پہنچے تھے اور نماز پڑھے جانے پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں کے گربھ گرہ اور باہر کی دیواروں کے کھمبوں پر صاف صاف ہندو-جین مندر کا طرز تعمیر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس لیے ڈھائی دن کا جھونپڑا میں نماز نہیں پڑھی جانی چاہیے۔ ڈھائی دن کا جھونپڑا پر تنازعہ رواں سال کے شروع میں اس وقت بھی ہوا تھا جب ایک جین سادھو اسے دیکھنے کے لیے پہنچے تھے۔ اس وقت انھیں کچھ لوگوں نے اندر داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ اس کے بعد ہنگامہ پیدا ہو گیا تھا، کیونکہ ڈھائی دن کا جھونپڑا ایک سیاحتی مقام ہے۔ اس کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ کی ہے۔ اس واقعہ کے بعد اجمیر سمیت ملک بھر کے جین طبقہ نے انتظامیہ کے سامنے اپنا اعتراض ظاہر کیا تھا۔
واضح رہے کہ ’ڈھائی دن کا جھونپڑا‘ 1192ء میں افغان سپہ سالار محمد غوری کے حکم پر قطب الدین ایبک نے بنوایا تھا۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس جگہ پر ایک بہت بڑا سنسکرت اسکول اور مندر تھا، جنھیں توڑ کر مسجد بنایا گیا تھا۔ ڈھائی دن کے جھونپڑا کے صدر دروازے کے بائیں طرف سنگ مرمر کی بنی ایک نقاشی بھی ہے جس پر سنسکرت میں اس اسکول کا تذکرہ ہے۔ اس مسجد میں مجموعی طور پر 70 ستون ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ ستون ان مندروں کے ہیں جنھیں منہدم کر دیا گیا تھا، لیکن ستون کو اسی حالت میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ ان ستونوں کی اونچائی تقریباً 25 فیٹ ہے اور ہر ستون پر خوبصورت نقاشی کی گئی ہے۔