بھوپال:22نومبر:(پریس ریلیز) اردو کے20 سے زائد ناولوں کے مصنف، 30کہانیوں کے مجموعے اور ریڈیو ڈراموں کے بے شمار مجموعے لکھنے والے مختصر کہانیوں اور ناولوں کے اردو اور ہندی مصنف کرشن چندر آج ہی کے دن 23 ؍نومبر 1914کو راجستھان کے بھرت پور میں پیدا ہوئے۔کرشن چندر نے تحصیل مہندر گڑھ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اردو زبان انہوں نے پانچویں جماعت سے پڑھنا شروع کیا اور آٹھویں جماعت میں اختیاری مضمون کے طور پر فارسی کا انتخاب کیا۔ انہوںنے میٹرک کا امتحان سیکنڈ ڈویزن میں وکٹوریہ ہائی اسکول سے پاس کیا۔ اس کے بعد انہوں نے کالج میں داخلہ لیا۔ اسی زمانہ میں ان کی ملاقات بھگت سنگھ کے ساتھیوں سے ہوئی اور وہ انقلابی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے۔ انھیں گرفتار کر کے دو ماہ کے لئے نظر بند بھی رکھا گیا۔ کرشن چندر نے اپنے افسانوں اور ناولوں کے ذریعے ترقی پسند ادب کی قیادت کی اور اسے عالمی سطح تک پہنچا دیا۔ انہوںنے درجنوں ناول اور 500 سے زائد افسانے لکھے۔ ان کی تصانیف کا ترجمہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہو چکا ہے۔کہا جاتا ہے کہ کرشن چندر کے پاس اک شاعر کا دل اور اک مصور کا قلم ہے، ان کے موضوعات بھارتیہ زندگی اور اس کے مسائل کے گرد گھومتے ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کرشن چندر جیسے بہترین مصنف اور ادیب نے اپنی تحریریوں میں اُردو زبان کا کثرت سے استعمال کیا ہے اور ایک عرصے تک آپ نے اسی پیاری زبان اُردو میں اپنی خدمات دی ہیں۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ اُردو بھارت ہی کی بیٹی ہے جو بھارت ہی میں پروان چڑھی ہے اور مختلف شعراء و ادباء نے جہاں ہندی زبان میں اپنی تحریرات لکھی وہیں بلا تفریق مذہب اُردو میں بھی اپنا کلام پیش کیا ہے۔اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اُردو مسلمانوں اور مغلوں کی زبان نہیں ہے بلکہ بھارت کی زبان ہے۔ اور قاعدہ بھی یہی ہے کہ جو جہاں پیدا ہوا ہے اس کی نسبت اسی جگہ کی طرف کی جاتی ہے،پھر چاہے وہ انسان ہو یا کوئی زبان۔ اُردو زبان کی پیدائش بھی بھارت میں ہوئی اسی لئے یہ زبان بھارت کی بیٹی اور ہندی کی بہن کہلاتی ہے۔ غور طلب ہے کہ بھارت وہ ملک ہے جس میں سینکڑوں بولیاں اور کئی ز با نیں بولی جاتی ہیں۔ہمارا ملک بھارت زبانوں کا گھر ہے۔ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، پارسی اور بودھ کے میل جول اور ان کی زبانوں کے میل جول سے اُردو زبان کو فروغ حاصل ہواہے۔ لیکن آج اسی پیار اُردو زبان کو بھارت جیسے جمہوری ملک میں تعصب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔حالانکہ زمانۂ ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ کیا ہندو اور کیا مسلم سب اُردو کی تعلیم حاصل کرتے تھے اورکئی مرتبہ تو غیر اُردو نام والوں کی اُردو بہت اچھی ہوا کرتی تھی کیونکہ اُردو ایک پیاری اور میٹھی زبان ہے اس کا تعلق کسی خاص مذہب سے جوڑنا نادانی ہے۔