بھوپال :22؍نومبر:راجدھانی بھوپال کے تاریخی اور ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کے مقصد سے دیرات بھوپال منچ نے حال ہی میں اقبال میدان کے حوالے سے ایک خصوصی میٹنگ کا اہتمام کیا۔ اس اجلاس میں سماج کے مختلف طبقات اور مذاہب کے نمائندوں نے شرکت کی۔ میٹنگ میں اتحاد، خیر سگالی اور بھوپال کی گنگا جمنی تہذیب کی جھلک صاف نظر آئی۔میٹنگ میں بنیادی طور پر میدان اقبال کی موجودہ صورتحال، اس کے تاریخی اور ثقافتی کردار پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ایڈوکیٹ سید ساجد علی نے اقبال میدان میں سماجی اور ثقافتی پروگراموں پر انتظامیہ کی طرف سے عائد پابندیوں کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ وہیںانہوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ گراؤنڈ کی مناسب دیکھ بھال اور خوبصورتی کو ترجیحی بنیادوں پرازسرنو کیا جائے۔محسن علی خان نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ بھوپال اب دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ نیا بھوپال اور پرانا بھوپال۔ جہاں نیا بھوپال ترقی اور عوامی سہولیات کی طرف گامزن ہے، وہیں پرانا بھوپال سیاسی سازشوں اور نظر اندازی کی وجہ سے سماجی، اقتصادی اور بنیادی ڈھانچے کے بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ انہوں نے پرانے بھوپال کی حالت زار کو اندھیرے میں دھکیلنے سے تعبیر کیا اور اس کے احیاء کی ضرورت پر زور دیا۔اس میٹنگ میں مختلف مذاہب اور برادریوں کے افراد نے شامل ہوکر اتحاد اور بھائی چارے کا پیغام دیا۔ یہ بھوپال کی گنگا جمنی ثقافت کی ایک بہترین مثال تھی۔ وراثت بھوپال منچ نے تمام مذاہب اور طبقات کو متحد کیا اور ثابت کیا کہ بھوپال اپنے ثقافتی ورثے کو بچانے کے لیے ہروقت تیار ہے۔
میٹنگ کے آخر میں فورم نے انتظامیہ اور سماج سے پرزور اپیل کی کہ وہ پرانے بھوپال کی بہتری اور تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔ ساتھ ہی وراثت بھوپال منچ نے یقین دلایا کہ وہ بھوپال کی ترقی کے لیے ہر قانونی اور آئینی جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔اجلاس میں نہ صرف اقبال میدان کے ثقافتی اور تاریخی کردار پر توجہ مرکوز کی گئی بلکہ جانب بھی توجہ کی گئی کہ اتحاد اور اجتماعی کوششوں سے معاشرے میں مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ وراثت بھوپال منچ کا یہ قدم بھوپال کے ورثے کو بچانے اور اسے نئی نسلوں تک پہنچانے کے لیے ایک متاثر کن اقدام ہے۔