بھوپال:28؍اکتوبر:(پریس ریلیز) اُردو صرف زبان یا تہذیب ہی نہیں بلکہ ایک تحریک اور طرزِ حیات کا نام بھی ہے۔نہایت ہی سلیس،شیریں اور میٹھی زبان ہے ۔یہ محبت کی زبان ہے،یہ پیار کی زبان ہے ۔اُردو بھارت کی بیٹی اور ہندی کی بہن ہے اور رسم الخط اس کا لباس ہے۔ در اصل میں نے بہت پہلے کسی پروگرام میں یہ بات کہی تھی کہ اُردو رسم الخط کا اختیار کرنا ہی اصل میں اُردو کو اختیار کرنا ہے اور اردو اسی سے باقی رہے گی، ورنہ یہ ہوگا کہ ہماری آنے والی نسلیں برائے نام اُردو تو بول لیں گی لیکن اُردو میں لکھی ہوئی تحریر پڑھنے سے عاجز ہوجائیں گی۔ آج اگر ہم دیکھیں تو رومن اُردو کے نام سے جو وباء لوگوں میں عام ہوتی جارہی ہے اس کے نقصانات انتہائی سنگین ہیں۔اس طریقے سے کہنے کو تو اُردو لکھی جائے گی لیکن اُردو رسم الخط سے ناواقفیت بڑھتی جائے گی جس کے ذمہ دار ہم اور آپ خود ہوں گے۔اور اس طرزِ تحریر کو دشمنِ اردو کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔
اگر ہم غور کریں گے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ رومن اردو سے اردو رسم الخط کو کیا خطرہ لاحق ہے۔ ترکوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔جہاں رومن حروف کے ذریعہ ترک نسل کو اسلامی کتب جو عربی رسم الخط میں تھیں ان سے دور کر دیا گیا اور ایک وقت یہ آیا کہ آنے والی نسل دیگر کتب تو دور کی بات قرآن مجید پڑھنے میں بھی دشواری کا سامنا کر رہی تھی۔ کیونکہ قرآن مجید بھی عربی رسم الخط میں ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں لکھی جانے والی بیش بہا کتب کا خزانہ تو موجود تھا لیکن ترک ان کتابوں کو پڑھنے سے قاصر تھے۔
ہمیں تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا…
آج ہمارے معاشرے میں عام لوگوں کی کیا بات کی جائے خواص کا حال یہ ہے کہ جب بھی کوئی پروگرام اُردو سے متعلق ہوتا ہے تو وہاں بھی اُردو کو حاشیہ پر رکھ دیا جاتا ہے اور جو ادباء و شعراء اُردو کا راگ الاپتے پھرتے ہیں یا یوں کہیں ان کی روزی روٹی ہی اُردو ہے وہ بھی اس طرف توجہ نہیں دیتے۔ اُردو رسم الخط کو فراموش کیا جارہا ہے حتی کہ خالص اُردو مشاعروں میں بھی شعراء اپنی اسکرپٹ رومن میں لکھ کر پڑھتے ہیں۔شعراء گوگل سے کاپی پیسٹ کرکے مشاعرہ پیش کرتے ہیں۔ جس میں نہ تو تلفظ کا ٹھکانہ رہتا ہے تو حرف کی ادائیگی ہی صحیح ہوپاتی ہے۔