نیتن یاہو، ہائے ہائے!
گزشتہ سال ۷اکتوبرکو جب حماس نے اِسرائیل پر حملہ کیا تھا تب اس کے ایک ایسے دفاعی نظام کو غچہ دیا تھا جس پر حکومت ِ اسرائیل کو بہت ناز تھا۔ ایک سال کے بعد ایک بار پھر اسرائیل پر حملہ ہوا ہے جو حماس کے گزشتہ سال کے حملے کی طرح تباہ کن تو نہیں ہے مگر اس اعتبار سے اسرائیل کو دن میں تارے دکھانے والا ضرور ہے کہ اِس بار ڈرون حملہ نیتن یاہو کی رہائش گاہ پر کیا گیا ہے حالانکہ وہ وہاں تھے نہ ہی وہاں رہتے ہیں۔ ا±ن کی سرکاری رہائش گاہ کسی اور جگہ پر واقع ہے۔ یہ حملہ اسرائیل کیلئے شرمناک تو ہے ہی، نیتن یاہو کیلئے انتباہ بھی ہے اور اسرائیلی دفاعی نظام کی قلعی بھی کھولتا ہے۔ اس کے ذریعہ اسرائیل اور اس کی جابر حکومت کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ آپ طاقتور ہوسکتے ہیں مگر دوسرے کمزور نہیں۔
نتین یاہو جو کچھ بھی کررہے ہیں ا±س کے پیش نظر ایسا لگتا ہے کہ ا±نہیں اپنے عوام کا مکمل تعاون اور حمایت حاصل ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ اسی سال جون میں مشہور تحقیقی ادارہ ”پیو ریسرچ“ نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ۳۵ فیصد لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ا±ن کی حکومت جو کچھ کررہی ہے وہ درست ہے جبکہ ۷۴ فیصد کا کہنا تھا کہ وہ اس کے اقدامات سے اتفاق نہیں کرتے۔ اسرائیل میں دو طرح کی آبادی ہے۔ ایک اسرائیلی عربوں پر مشتمل ہے اور دوسری اسرائیلی یہودیوں پر۔ اول الذکر کی بڑی تعداد نیتن یاہو اور ان کی حکومت کی کارروائیوں کو ناپسند کرتی ہے جبکہ آخر الذکر کی بڑی تعداد اِن کارروائیوں کو پسند کرتی ہے۔ یہ رپورٹ پیو ریسرچ کی ویب سائٹ پر۰۲ جون۴۲ءکو پوسٹ کی گئی ہے۔
کسی ملک کی کم و بیش نصف آبادی کا اپنی حکومت کے اقدامات سے اتفاق نہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے وہ بھی ایسے دور میں جبکہ جنگ جاری ہو۔ جنگوں کے دور میں عموماً لوگ اپنی حکومت کے اقدامات کی حمایت کرتے ہیں خواہ وہ عام دنوں میں ا±نہیں ناپسند کریں۔ پیو نے جو تحقیق کی وہ تب کی جب جنگ جاری تھی (جو اَب بھی جاری ہے) اور دورانِ جنگ نصف آبادی کا اپنے وزیر اعظم سے عدم اتفاق کا اظہار کرنا نتین یاہو کی غیر مقبولیت کا بہت بڑا ثبوت ہے۔ اگر ا±ن کی کارگزاریوں کو عوامی حمایت حاصل ہوتی، جیسا کہ وہ دعویٰ کرتے آئے ہیں تو جنگ جاری ہونے کے باوجود وہ اِس قدر غیر مقبول نہ ہوتے جتنے کہ ہیں۔ ٹائمس آف اسرائیل نے کچھ عرصہ پہلے چند سرویز کے حوالے سے لکھا تھا کہ اسرائیلیوں کی بڑی تعداد ا±ن لوگوں پر مشتمل ہے جو طے شدہ وقت پر (۶۲۰۲ء) میں الیکشن کے حق میں نہیں ہیں ، ا±ن کا کہنا ہے کہ جنگ ختم ہو یا جاری رہے، الیکشن (وسط مدتی) ضروری ہے۔ اگر یہ نیتن یاہو اور ا±ن کی حکومت سے اظہارِ بے زاری نہیں تو اور کیا ہے۔ اخبارِ مذکور کے مطابق ۱۷ فیصد وسط مدتی انتخابات چاہتے ہیں جبکہ صرف ۱۲ فیصد اس خیال کے حامل ہیں کہ الیکشن وقت پر ہوں یعنی ۶۲۰۲ءمیں۔
لیکڈ پارٹی کے ایک سابق رکن اور پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ایمانوئیل نیوون نے دوٹوک الفاظ میں نیتن یاہو کی مذمت کی اور کہا کہ ”سیاسی اعتبار سے وہ کئی بار دفن ہوچکے ہیں مگر اس بار صورتحال مختلف ہے، ا±ن کا وقت پورا ہوچکا ہے۔“ کئی لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اپنے علاوہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اسرائیل کا مشہور اخبار ”ہاریٹز“ نیتن یاہو کو ”خوفزدہ جابر حکمراں “ قرار دے چکا ہے۔ خوفزدہ کیوں ؟ شاید اس لئے کہ جو نئی حکومت آئیگی وہ ا±نہیں جیل بھیج سکتی ہے!