بڑھتے جرائم پولیس اصلاحات کے متقاضی

0
6

معاشرہ میں قیام امن و امان اور ترقی کی رفتار کو جاری رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ عمومی صورتحال ہر وقت نگاہوں کے سامنے رہے۔کیا ہوا، کیا ہورہا ہے کی بنیاد پر کیا ہونے والا ہے کے امکانات اور خدشات کا اندازہ لگایاجاتا ہے۔اس کیلئے مختلف طرح کے سروے، جائز ے اور ریکارڈ مرتب کیے جاتے ہیں۔ مالیاتی ریکارڈملک میں مالی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے تو جرائم کے ریکارڈ معاشرہ میں امن و امان اور نظم ونسق کی عمومی صورتحال کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوںکی کارکردگی کا بھی آئینہ ہوتے ہیں۔اس آئینہ میں نظر آنے والی بری صورت کو حسب ضرورت بہتر بنانے کی سبیل کی جاتی ہے، حکمراں اور ارباب حل و عقد جرائم کے انسداد کی تدبیر ڈھونڈتے ہیںاورا ن پر عمل کرکے ہدف تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔اسی مقصد کے تحت ملک میں جرائم کے ریکارڈ اکٹھاکرنے کی بھی روایت ہے اوراس کیلئے مرکزی وزارت داخلہ کے تحت باقاعدہ ایک ادارہ ’ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو‘(این سی آر بی) کام کرتا ہے۔ یہ ادارہ ہر سال ملک میں ہونے والے مختلف نوعیت کے جرائم کی زمرہ بندی کرتا ہے اور قومی سطح پر ریاستوں کے حساب سے ان کے اعدادوشمارجاری کرتا ہے۔این سی آر بی نے ریاستوں سے موصول ہونے والے اعدادوشمار کی بنیاد پر سال2022میں ملک کے اندر ہونے والے جرائم کی رپورٹ تیار کی ہے اوراسے آج عوام الناس کیلئے جاری بھی کیا گیا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں فی لاکھ آبادی کے مجموعی جرائم میں کمی آئی ہے لیکن سائبر کرائم میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ سال2021میں ملک بھر میں 60.9 لاکھ مجرمانہ مقدمات درج ہوئے، تاہم سال2022میں یہ تعداد58.2 لاکھ رہی۔ 2021 کے مقابلے میں 2022 میں سائبر جرائم کے کیسز میں 24.4 فیصد اضافہ ہوا۔ دہلی میں جرائم کی شرح سب سے زیادہ تھی۔
اس کے بعد کیرالہ، ہریانہ، گجرات اور تمل ناڈومیں مجرمانہ وارداتیں سب سے زیادہ ہوئی ہیں۔ قتل اور اغوا جیسے جرائم کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق 2022 میں خواتین کے خلاف جرائم کے 4.45 لاکھ کیس درج کیے گئے جو 2021 کے مقابلے میں 4 فیصد زیادہ ہے۔ بچوں کے خلاف جرائم کے اعداد و شمار میں بھی تشویشناک رفتار سے اضافہ ہوا ہے۔2022 میں کل 53.9 لاکھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ 43.7 لاکھ ملزمان کے خلاف چارج شیٹ داخل کی گئی۔ 10.5 لاکھ مجرم ٹھہرائے گئے، 9.81 لاکھ کو بری کیا گیا۔اس رپورٹ کی ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں کولکاتا کو ملک کا سب سے محفوظ شہر قرار دیا ہے۔ کولکاتا ملک کے ان 18 بڑے شہروں میں سے ایک ہے، جو فی لاکھ آبادی میں سب سے کم قابل شناخت جرائم کے ساتھ مسلسل تیسرے سال ہندوستان کا سب سے محفوظ شہر بن کر ابھرا ہے۔یہ مسلسل تیسرا سال ہے جب کولکاتا ملک کاسب سے محفوظ شہر قرار پایا ہے۔ جب کہ اس رپورٹ کے آئینہ میں دہلی ملک ہی نہیں بلکہ جرائم کی راجدھانی بھی سمجھی جاسکتی ہے۔قومی راجدھانی دہلی میں 2022 میں 3 لاکھ سے زیادہ مجرمانہ مقدمات درج کیے گئے۔ 18بڑے شہروں میں دہلی قتل، خواتین کے خلاف جرائم اور کل مقدمات میں سرفہرست ہے۔سوال یہ ہے کہ ملک میںجرائم کا منظرنامہ اتنا خوفناک کیوں ہوتاجارہاہے ؟وہ بھی اس وقت جب ملک میں قانون نافذ کرنے والی کم ازکم30ایجنسیاں مرکزی سطح پر کام کرتی ہیں،اس کے علاوہ مختلف ریاستوں میں درجنوں ان کی اپنی ایجنسیاں بھی ہیں، اس سے بڑھ کر ریاستوں کی اپنی پولیس ہے جس کے کاندھوں پر انسداد جرائم کی بنیادی ذمہ داری ہے۔اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کیلئے بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہمیں اپنے آس پاس نظر آنے والے پولیس حکام کو دیکھ کر ہی یہ اندازہ ہوجا تا ہے کہ ملک میں پولیس کا موجودہ نظام فرسودہ ہوچکا ہے۔ پولیس حکام کو دیکھ کر عوام میں احساس تحفظ پیدا ہونے کے بجائے خوف پیدا ہوتا ہے۔پولیس،جس کے ذمہ ریاست کے بنائے ہوئے قوانین کو نافذ کرنا، املاک کی حفاظت اور شہری انتشار کو محدود کرنے کے کام ہیں، وہ عوام کی اتحادی بننے کی بجائے مجرموں کی پشت پناہی کرتی نظرآتی ہے۔ قانون شکنی اور مجرموں کے خلاف طاقت کے جائز استعمال کے دیے گئے اختیارات کو عوام پر ہی استعمال کرنے لگتی ہے۔
اس لیے آج عام آدمی پولیس سے اتنا ہی ڈرتا ہے جتنا وہ مجرم سے ڈرتا ہے۔ اعلیٰ پولیس حکام سے بالعموم یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ متاثرین کو انصاف فراہم کریں گے اور انہیں سماج دشمن عناصر سے تحفظ فراہم کریں گے لیکن یہ توقع پوری نہیں ہوتی ہے۔پولیس کارویہ ایسا ہوتا ہے کہ عدالتیں بھی اس کی شاکی نظرآتی ہیں۔انسداد جرائم اور نفاذ قانون کے بنیادی ذمہ داروں کی جب معاشرہ میںیہ شبیہ ہو تو پھر جرائم کی شرح کا بڑھنا غیر متوقع نہیں کہاجاسکتاہے۔بڑھتے جرائم پر روک تھام کیلئے ضروری ہے کہ بنیادی اداروں میں اصلاحات لائی جائیں، خاص کر پولیس کے محکمہ میں اصلاحات کے بغیر جرائم میں کمی کا تصور نہیں کیاجاسکتا ہے۔ ملک کی عدالت عظمیٰ بھی کئی بار پولیس اصلاحات کے مشورے دے چکی ہے جس پر غور کیے جانے کی ضرورت ہے۔