مہاراشٹر میں اپوزیشن اتحاد مستحکم کرے

0
5

مہاراشٹر میں اپوزیشن اتحاد مستحکم کرے
عارف عزیز (بھوپال)
ملک کی بڑی ریاستوںمیںشامل مہاراشٹرا میںاسمبلی انتخابات کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کا شیڈول جاری کردیا گیا ہے اور 20 نومبر کو ایک مرحلہ میںرائے دہی ہوگی جبکہ 23 نومبر کو رائے شماری کے بعد نتائج کا اعلان کردیا جائے گا۔ انتخابی شیڈول کی اجرائی سے قبل ہی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنی اپنی تیاریوں کا آغاز کردیا گیا تھا۔ اب یہ تیاریاں مزید تیز ہوگئی ہیں۔ بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کی جانب سے بھی نشستوںکی تقسیم پر مذاکرات کا عمل شروع ہوگیا ہے۔جہاںتک کانگریس اتحاد کا سوال ہے ان میں بھی مشاورت کا عمل تیز ہوچکا ہے۔ ریاست کی تقریبا تمام نشستوں پر اتفاق رائے ہے اور کچھ نشستیں ایسی ہیں جن کے تعلق سے کانگریس شیوسینا ادھو ٹھاکرے اور این سی پی شرد پوار کے مابین مذاکرات چل رہے ہیں۔ ان پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ ریاست میں بحیثیت مجموعی جو صورتحال ہے اس میںاپوزیشن کو اپنی حکمت عملی کو بہتر اور موثر بنانے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ کانگریس اورا س کی حلیف جماعتوںکو اپنے ماضی کے تجربات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بات پر توجہ دینا چاہیے کہ غلطیوںکو دہرایا نہ جاسکے۔ صرف نشستوںکی تقسیم پر ہی توجہ نہیںہونی چاہئے بلکہ اس بات پر بھی خاص حکمت عملی کی ضرورت ہے کہ اتحاد میں شامل جماعتوںکے قائدین ایک دوسرے سے ناراضگی کا اظہار نہ کریں۔ یہ حقیقت ہے کہ انتخابات کے ماحول میں تقریبا ہر جماعت اور ہر اتحادکے قائدین کو کسی نہ کسی مسئلہ پر شکایت ہوتی ہیں۔ تاہم اس کا اظہار سر عام کرنے کی بجائے آپسی نشستوں میںکرتے ہوئے اس کا ازالہ کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ تینوں ہی اتحادی جماعتوں کے ذمہ دار قائدین کو اس کا حل دریافت کرنا چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ کوئی ایسا بیان نہ دیا جائے جس کے نتیجہ میںاتحاد کے تعلق سے عوام میںمنفی تاثر پیدا ہو اور پھر رائے دہی پر اس کا اثر ہو۔ جس قدر جلد ممکن ہوسکے اس صورتحال کا حل دریافت کرتے ہوئے ایک خوشگوار فضاءپیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام میں ایک مثبت اور اچھا تاثر عام ہو اور اس کا اثر رائے دہی کے رجحان پر بھی مرتب ہو۔
مہاراشٹرا سیاسی اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل ریاست ہے۔ ملک کی بڑی ریاستوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ بی جے پی نے این سی پی اور شیوسینا میں پھوٹ ڈالتے ہوئے پچھلے دروازے سے اقتدار حاصل کیا ہے۔ اب کانگریس کے علاوہ ادھو ٹھاکرے اور شرد پوار کو عوام کے ووٹ سے اقتدار حاصل کرنے کی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ایسے میں اگر کچھ ریاستی قائدین کی کم فہمی کی وجہ سے منفی بیان بازیاںہوتی ہیں تو یہ صورتحال اتحاد کیلئے اچھی نہیں کہی جاسکتی۔ اس کے علاوہ نشستوں کی تقسیم کا مسئلہ بھی جتنا جلد ممکن ہوسکے حل ہوجانا چاہئے۔ اختلافی امور کو جتنی طوالت دی جائے گی اتنا ہی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ ہر جماعت کی اعلی قیادت کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ریاستی اور مقامی قائدین کو قابو میں کریں۔ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیوں سے گریز کیا جائے اور اپنی صفوں کو مستحکم کرتے ہوئے برسر اقتدار اتحاد کی ناکامیوں اور ان کی غلط کاریوں کو عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے ان کے ووٹ حاصل کئے جائیں۔ تمام بڑی جماعتوں کو اس حقیقت کوتسلیم کرنا چاہئے دو ایک نشستوںپر اختلاف یا جھگڑا اگر برقرار رہا تو اس کا سارے نتائج پر اثر ہوسکتا ہے۔ دو ایک نشستوں سے کسی بھی جماعت کی برتری یا بالادستی پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ اگر بی جے پی اور ایکناتھ شنڈے یا اجیت پوار کو اقتدار سے باہر کرنا ہے تو ہر جماعت کو ایثار و تحمل کے ساتھ بھی کام کرنے کی ضرورت ہوگی اوراس کیلئے ہر جماعت کو تیار رہنا چاہئے۔ محض اپنی سیاسی انا کی تسکین کیلئے بی جے پی یا اس کی حلیف جماعتوں کو حالات کے استحصال کا موقع نہیںدیا جانا چاہئے۔
کانگریس کے ساتھ ادھو ٹھاکرے ہوں یا پھر شرد پوار ہوںسبھی کو کچھ مقامی اور علاقائی جماعتوں کی اہمیت کو بھی سمجھنے اور ان کو ساتھ لینے کی ضرورت ہے۔ انتخابی موسم میں انتہائی معمولی سمجھی جانے والی بات بھی اہمیت کی حاملہوتی ہے اور اس کے اثرات نتائج پر تک مرتب ہوسکتے ہیں۔ ہر جماعت کو وسیع الذہنی اور وسیع القلبی کے ساتھ کام کرتے ہوئے اقتدار پر واپسی کے نشانہ کے ساتھ کام کرنا چاہئے۔ ماضی کے جو تجربات کانگریس کو ہوئے ہیں ان کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ علاقائی عوامل کو پیش نظر رکھنا ہر انتخاب میںضروری ہوتا ہے۔ جو ماحول مہاراشٹرا میں محسوس ہورہا ہے اس کے مطابق اپوزیشن اپنی غلطیوںکا جتنی جلدی ازالہ کر پائے گی اتنا ہی اسے رائے دہی اور نتائج میں فائدہ ہوسکتا ہے۔