لندن، 14 جون (یو این آئی) جنوبی افریقہ کی 2025 کی ٹیم نے کرکٹ میں اہم مقام رکھنے والے لارڈز میں ہفتہ کو آسٹریلیا کو پانچ وکٹ سے شکست دے کر آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا خطاب اپنے نام کر لیا۔اس جیت سے نہ صرف 27 برسوں میں اس کا پہلا سینئر مینز آئی سی سی خطاب یقینی ہوا بلکہ پوری کرکٹ قوم کے کئی دہائیوں کے غم کو بھی مٹا دیا۔ لارڈز کے صاف آسمان کے نیچے،بالآخر پروٹیز پر سورج کی روشنی چمکی۔ ایک ایسی قوم کے لیے جس نے 1999 میں ایلن ڈونلڈ کے رن آؤٹ سے لے کر گزشتہ سال ہندوستان کے خلاف ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دل ٹوٹنے تک، بہت سے تکلیف دہ آئی سی سی کے دردناک لمحے دیکھے ہیں ، ا س کے لئے یہ صرف ایک اور فائنل نہیں تھا۔ یہ ایک حساب تھا اور سب سے بڑے اسٹیج پر انہوں نے کمال کردیا۔
آخری بار جنوبی افریقہ نے 1998 میں آئی سی سی ٹرافی اٹھائی تھی۔ تب سے، توقعات بڑھتی اور گرتی رہیں۔ کسی اور کرکٹ ٹیم کو اتنے قریبی مقابلوں کا جذباتی بوجھ نہیں اٹھانا پڑا ہے۔ لیکن اس بار یہ مختلف تھا. اس بار ٹھنڈے مزاج والے ٹیمبا باوما کی قیادت میں ٹیم نے پلک جھپکانے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے چوتھے دن صبح 69 رن کے معمولی ہدف کا تعاقب کیا اور واضح طور پر پیغام دیا کہ یہ جنوبی افریقی ٹیم تاریخ کو دہرانے نہیں بلکہ اسے دوبارہ لکھنے آئی ہے۔213/2 سے آگے کھیلتے ہوئے دن کا آغاز خوف کے ساتھ ہوا۔ باوما نے 66 رن کی شاندار اننگز کھیلی، اور ٹرسٹن اسٹبس بھی جلد ہی آوٹ ہوگئے۔ پھر بھی کوئی گھبراہٹ نہیں تھی۔ تیسرے دن سنچری بنانے والے کریز پر ایڈن مارکرم کھڑے تھے ہمیشہ کی طرح پرسکون۔ انہون نے پہلے ہی جنوبی افریقہ کی ٹیسٹ تاریخ کی بہترین اننگز میں سے ایک کھیلی تھی۔ ایک روانی سے 136 رن پرجہاں ایک طرف ان کے ارد گرد وکٹیں گر رہی تھیں ہفتہ کو انہوں نے یقینی بنایا کہ پروٹیز لائن کو عبور کرے، چاہے ٹھیک پہلے ہی آؤٹ ہوگئے ہوں۔ فتح سے چھ رن پہلے ان کے آؤٹ ہونے سے لارڈز کے ہجوم کو صرف ایک لمحے کے لیے کھڑے ہونے اور اس شخص کو سلام کرنے کا موقع ملا جس کے بلے نے پوری قوم کی جیت کا اسکرپٹ لکھی تھی۔
جب کائل ویرین نے آخری شاٹ کھیلا اور اس کے بعد ہونے والی گرج سے ایسا محسوس ہوا جیسے پوری قوم ایک ساتھ سانس چھوڑ رہی ہے۔ مارکرم کی اننگز سنگ بنیاد تھی لیکن یہ فتح اجتماعی طاقت پر استوار ہوئی۔ بووما کا صبر۔ کاگیسو ربادا کا جوش۔ مہاراج کا کنٹرول۔ اسٹبس کی موجودگی اور ڈریسنگ روم جس نے ماضی کی ناکامیوں کے بھوت کو نہیں بھلایا۔مارکرم کے ساتھ 2014 کی انڈر 19 ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے ایک اور سابق کھلاڑی ربادا نے ثابت کیا کہ وہ اس باؤلنگ یونٹ کے روح رواں کیوں ہیں۔ میچ میں نو وکٹیں اور ایک اسپیل کے ساتھ جس نے دباؤ کو آسٹریلیا کے لیے دہشت میں بدل دیا۔جنوبی افریقہ نے صرف ایک ٹیسٹ نہیں جیتا ۔ انہوں نے تاریخ رقم کی۔ انہوں نے ڈبلیو ٹی سی سائیکل کے دوران مسلسل آٹھ جیت درج کیں جو اس فتح کو یادگار بناتی ہیں۔ یہ جیت سب سے بڑھ کر ان لوگوں کی ہے جو گھر واپسی پر خاموشی، غم اور ٹوٹتی امیدوں کے درمیان اپنی ٹیم کے ساتھ کھڑے رہے۔ ایک ایسی قوم کے لیے جس نے تبدیلی اور صدمے دیکھا ہے، یہ جیت اتحاد، فخر اور شاعرانہ انصاف لاتی ہے۔ جنوبی افریقہ میں کرکٹ، جو کبھی علیحدگی کی علامت تھی، اب آزادی کی کہانی ہے۔27 سال کی محنت سے حاصل کی گئی فتح کا تاج پہننے کے لیے لارڈز سے بہتر جگہ اور کیا ہو سکتی ہے۔ جنوبی افریقہ کے مجاہد انتہائی روایتی فارمیٹ کے چیمپئن کے طور پر وطن واپس آئیں گے، ان کے گلے میں تمغے اور ان کے ہاتھوں میں تاریخ ہوگی۔ ان کی کہانی صرف ٹرافی اٹھانے کی نہیں ہے بلکہ یہ ایک قوم کے جذبے کو بلند کرنے کی ہے۔ یہ جیت صرف فتح سے بڑھ کر زیادہ تھی۔