۱۱دسمبر ۱۹۲۲ کو پشاور کے قصہ خوانی بازار میں پھلوں کے تاجر غلام سرور خان کے گھر پیدا ہوئے دلیپ کمار کا اصلی نام (یوسف خان) ہے۔ کمار اپنے والدین کی ۱۳ ؍اولادوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم پونے اور دیولالی بزنس اسکول سے حاصل کی۔۱۹۳۲ میں کمار کا خاندان پشاور سے ممبئی منتقل ہوگیا،جہاں انجمن اسلامیہ اسکول سے میٹرک اور خالصہ کالج سے گریجویشن کی تعلیم حاصل کی۔ سال ۱۹۴۳ میں کمار کی ملاقات بامبے ٹاکیز کے مالکان دیویکا رانی اور ان کے شوہر ہمانشو رائے سے ہوئی جنہوں نے اپنی فلم ’’جوار بھاٹا‘‘(۱۹۴۴) کے ہیرو کیلئے انہیں چن لیا۔ دیویکا رانی نے یوسف خان کو مشورہ دیا کہ اگر وہ نام بدل لیں تو بہتر ہوگا،انہوں نے یوسف خان سے تین ناموں واسودیو، جہانگیر اور کمار میں سے ایک نام چننے کیلئے کہا۔
’’جوار بھاٹاـ‘‘ باکس آفس پر کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ اسکے بعد صاحب کی اگلی فلم ’’پرتیما‘‘ (۱۹۴۵)،ملن (۱۹۴۶) بھی ناکام ثابت ہوئیں۔۱۹۴۷ میں ہدایت کار شوکت حسین رضوی کی فلم ’’جگنوــ ‘‘ نے شاندار کامیابی حاصل کی، اس فلم میں صاحب کے ساتھ ہیروئن تھیں ملکہ ترتم نورجہاں اس فلم کے گانے کافی مقبول ہوئے،خاص طور پر رفیع صاحب اور نورجہاں کی آواز میں ’’یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیاہے۔محبت کرکے بھی دیکھا محبت میں بھی دھوکہ ہے۔ ۱۹۴۷ میں ہی ’’ندیا کے پار ‘‘ جس میں ان کی ہیروئن تھیں کامنی کوشل او ر’’ شہید ‘‘ریلیز ہوئیں لیکن یہ فلمیں بھی کوئی خاص کمال نہ دکھا سکیں۔۱۹۴۸ میں آئی فلم ’’ میلہ کی کامیابی کے بعد کمار بطور ہیرو ہندی سنیما میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ اسکے بعد کمار کی یک بعد دیگر کئی کامیاب فلمیں جیسے انداز، ترانہ، سنگ دل ، فٹپاتھ، آرزو ، آن، جوگن ، بابل، دیدار، داغ، دیوداس ، آزاد،نیا دور، مدھو متی، گنگا جمناوغیرہ منظر عام پر آئیں۔ جس میں کمار صاح ب نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔
۱۹۶۰ میں فلم ’’کوہِ نور‘‘ کے ایک گانے مدھوبن میں رادھیکا ناچے رے ‘‘ کیلئے خاص طور پر ستار بجانے کی تربیت حاصل کی تاکہ فلمائے جانے والا گانا بالکل حقیقی نظر آئے۔اس کوشش میں انکی انگلیاں بھی زخمی ہوگئیں۔ اسی طرح ۱۹۵۷ کی فلم ’’نیا دور ‘‘ کیلئے انہوں نے باقائدہ تانگہ چلانا سیکھاتاکہ کردار حقیقی نظر آئے۔ ’’مغل اعظم‘‘ میں شہزادہ سلیم کے کردار نے انہیں بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ۱۹۶۷ میں ریلیز ہوئی ’’رام اور شیام‘‘ کمار کی بہترین فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس فلم میں ان کی ہیروئن تھیں وحیدہ رحمان اور ممتاز۔’’رام اور کی شیام ‘‘ نقل پر ہی ہیما مالنی کی ’’سیتا اور گیتا ‘‘ ،سری دیوی کی ’’ چالباز ‘‘ اور انل کپور کی ’’ کشن کنہیا‘‘ وغیرہ فلمیں بنائی گئیں۔ بطور ہیرو کمار کی آخری فلم ’’بیراگ ‘‘ ۱۹۷۷ میں ریلیز ہوئی۔ اس میں انکے ساتھ ہیروئن تھیں انکی شریک حیات سائرہ بانو اور لینا چنداراورکر۔ ۱۹۸۱ میں منوج کمار کی ہدایت کاری میں بنی فلم ’’کرانتی ‘‘ کے کمار کے فلمی کیرئیر کی دوسری پاری کا آغاز ہوا۔ کمار صاحب کو’’ دادا صاحب فالکے ایوارڈ‘‘، پدم بھوشن، پدم وبھوشن اعزاز کے ساتھ آٹھ بار فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا ۔اسکے علاوہ وہ ۱۹۸۰ میں ممبئی کے شریف بھی رہے۔ حکومت پاکستان نے بھی صاحب کو اپنے سب سے بڑے قومی اعزاز ’’نشانِ امتیاز ‘‘ سے نوازا۔
جنوبی ہند (ساؤتھ انڈین سنیما) کے سپر اسٹا ر کمل ہاسن کمار کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ۱۹۸۱ میں جب میری پہلی ہندی فلم ’’ایک دوجے کیلئے ‘‘ریلیز ہوئی تو مجھے لگا کہ اب کمار صاحب سے ملنے کا موقع ملے گا تو ان سے مل کر اپنی پرفارمینس کے بارے میں بات کروں گا۔ کمل ہاسن بتاتے ہیں کہ جب میں چھوٹا تھا تو ،تقریباً ۱۵ سال تک مجھے ہندی فلمیں دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملاتھام کیونکہ اس دور میں جنوبی ہندوستان میں ہندی فلمیں بہت ہی کم ریلیز ہوا کرتی تھیں۔ اس دور کی بہترین فلمیں میں نہیں دیکھ پایا تھا۔ اسکے بعد میں نے صاحب کی ۱۹۶۱ میں ریلیز ہوئی کلاسک فلم ’’گنگا جمنا ـ‘‘دیکھی یہ فلم اداکاروں کی لئے ایک ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کی طرح ہے اور واقعی یہ فلم میں نہیں دیکھ پایا تھا۔ فلم ’’ ایک دوجے کیلئے ‘‘ کی سلور جوبلی پارٹی میں کمار صاحب آئے تو ان کو دیکھتے ہی میں ان کی طرف دوڑا، ان کا ہاتھ ایک پرستار کی طرح پکڑا۔ہاتھ پکڑتے ہی میری آنکھوں میں آنسوں آگئے۔ انہوں نے مجھے مبارکباد دی۔میں نے ان سے کہا آپ کی فلم بہت اچھی لگی، انہوں نے کہا کون سی فلم؟میں نے کہا ’’گنگا جمناـ‘‘وہ مجھے دیکھنے لگے۔میں نے ان سے کہاابھی کچھ دنوں پہلے ہی دیکھی ہے اس لئے میرے لئے یہ فلم نئی ریلیزہی ہے۔
دسمبر ۲۰۲۰ میں صاحب کی ۹۸ ویںسالگرہ پر قومی آواز نے یواین آئی کا ایک مضمون شائع کیا تھاجس میں ہندی سنیما کے جانے مانے اداکار دھرمیندر نے کہا تھا کہ کمار ان کے بڑے بھائی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ دونوں الگ الگ ماں کی کوکھ سے پیدا ہوئے ہیں۔ صاحب ہندی فلم جگت کا ایک اہم ستون تھے۔انہوں نے ہمیشہ لتا منگیشکر کو اپنی چھوٹی بہن مانا اور ہر سال رکشا بندھن کے دن لتا جی انہیں راکھی باندھنے جاتی تھیںاور آخری وقت تک انکی خیریت دریافت کرتی رہیں ۔ اسی طرح۱۹۹۴ میں مرحوم سنیل دت نے جب اخلاقی بنیاد پر اپنے پارلیمانی حلقہ سے استعفیٰ دینا چاہا تو صاحب نے اس کی مخالفت کی ،یہ وہ وقت تھا جب ۱۹۹۳ کے ممبئی بم دھماکوں کے سلسلے میں سنجے دت کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور ذہنی طور سے سنیل دت کافی پریشان تھے۔ اس موقع پر کمار سنیل دت کے شانہ بہ شانہ کھڑے نظر آئے اور انہیں کوئی بڑا قدم اٹھانے سے روکتے رہے۔ پوری دنیا میںدلیپ کمار کے بے شمار چاہنے والے ہیں انہیں میں سے ایک ہیں علی گڑھ مسلمیونیورسٹی کے سینٹ اور بزنس مین آصف فاروقی۔آصف فاروقی دلیپ کمار سے اپنے ۳۰ سالہ مراسم کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کمارصاحب نے نہ صرف سیاسی بلکہ سماجی زندگی کے سفر میں بھی انکی بھرپور رہنمائی کی۔ انہوں نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ سماجی بہبود کے کام سے ابتداء کروں ، اسی سے سماج کی ترقی ہوتی ہے صرف نام بلند کرنے سے کچھ نہیں ہوتا،یہ سبق سے بڑا تھا جو صاحب سے سیکھاتھا۔ آصف فاروقی کہتے ہیں کہ دنیا نے دلیپ کمار کو افسانوی شخصیت، شہنشاہِ جذبات اور سپر اسٹا ر جیسے خطابات اور القاب سے نوازا لیکن میری نظر میں وہ ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب کے سچے علمبردار تھے، انہیں ایک ہمدرد، مخلص، بے لوث اور سچے انسان کے طور پر ہی یاد کیا جائے گا۔ صاحب ممبئی کے جوہو واقع قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا تھا جہاں وہ آرام فرما ہیں ، اللہ پاک انکی مغفر ت فرمائے انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
۷ ؍جولائی ۲۰۲۱کوساڑھے ۹۸ سال کی عمر دنیائے فانی رخصت ہوئے کمار صاحب کے بارے اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ شاید ہی ان کی زندگی کا کوئی گوشہ چھوٹا ہو جس پر فلمی مبصرین نے روشنی نہ ڈالی ہو۔یہاں مقصدکمار کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انکی یاد وں کو پھر سے تازہ کرنا ہے۔ کمار کی عظمت کا اعتراف انکے بعد آنے والے اداکاروں نے ہمیشہ کیا ہے کہ کمار کی فلموں کو دیکھ کر اور انکی تقلید کرتے ہوئے انہوں نے اداکاری کی بارکیاں سیکھیں۔ کما ر کی شہرت اور مقبولیت میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی سپر اسٹار امیتابھ بچن کا کہنا ہے کہ ہندوستانی فلموں کی تاریخ دو حصوں میں لکھی جائے گی،ایک حصہ کمار سے پہلے کا اوردوسرا حصہ کمار کے بعدکا تاریخ پر مبنی ہوگا اُن کا کہنا ہے کمار سے بڑا فنکار کوئی نہیں اور نہ ہوگا۔صاحب کے انتقال پر اداکار سنیل شیٹی نے کہا تھا آج ایک باب کا اختتام ہوااور ہم نے ہندوستانی سنیما کے سب سے روشن ستارے کو کھو دیا، صاحب ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے ۔