نئی دہلی 5نومبر: اتر پردیش کے مدرسہ ایکٹ پر منگل کو سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلہ سنایا، جس میں عدالت عظمیٰ نے الہ باد ہائی کورٹ کے فیصلے کو بدل دیا ہے۔ عدالت نے اتر پردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ 2004 کے آئینی جواز کو برقرار رکھا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ اتر پردیش مدرسہ ایکٹ کی دفعات سیکولرازم کے اصول کی خلاف ورزی نہیں کرتی ہیں۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس جے بی پاردیوالا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ کے ذریعہ دیئے گئے اس اہم فیصلہ کا مسلم مذہبی رہنماؤں نے خیر مقدم کیا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے کورٹ کے اس فیصلے پر خوشی ظاہر کی ہے۔ انہوں نے اس فیصلہ کو انصاف کی جیت بتائی اور کہا کہ سپریم کورٹ کا تبصرہ ’جیو اور جینے دو‘ میں اہم پیغام چھپا ہوا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سینئر رکن مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے اس فیصلہ پر کہا ’’ظاہر سی بات ہے کہ جو قانون خود حکومت نے بنائی ہو وہ کیسے غیر قانونی ہو سکتا ہے۔ بہرحال ان مدرسوں سے ہزاروں لوگ جڑے ہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے سے انہیں بہت راحت ملی ہے۔ اب ہم لوگ پوری آزادی کے ساتھ اپنے مدرسوں کو چلا سکتے ہیں۔‘‘ جمعیۃ علماء ہند کے قانونی مشیر مولانا کعب رشیدی نے بھی عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو حق بجانب قرار دیا ہے۔ انھوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’سپریم کورٹ نے آئین کی روح کی حفاظت کی ہے۔ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ کو برقرار رکھ کر عدالت نے ایک بہت بڑا پیغام دیا ہے۔‘‘ آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ کے ترجمان مولانا یعقوب عباس نے بھی مدرسہ ایکٹ سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر اظہار اطمینان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’جس طریقے سے سپریم کورٹ نے مدرسہ ایکٹ کو جائز اور صحیح ٹھہرایا، ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ مدرسوں کا ملک کی آزادی میں اہم کردار رہا ہے۔ مدرسوں نے ہمیں کئی آئی اے ایس، آئی پی ایس، وزیر اور گورنر دیئے ہیں۔ مدرسوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا غلط ہے۔‘